اتوار، 31 اکتوبر، 2010

فیسبکیوں کی ہجو میں ایک نظم

کسی زمانے میں سنا تھا کہ غم اچھے بھلے انسان کو شاعر بنا دیتا ہے۔ تب تو یقین نہیں آیا لیکن آج جب میں نے خود ایک نظم پوری کی تو مجھے یقین آ گیا کہ واقعی غم مجھ جیسے نمونوں کو بھی شاعر بنا سکتا ہے۔

یہ بے قاعدہ اور بے ہنگم نظم میں اپنے ان تمام دوستوں کے نام کرتا ہوں جن کی وجہ سے ہمارا فیسبک کے بائیکاٹ کا منصوبہ ناکام ہوا۔ اس نظم کی بنیاد میں دھوکہ، فراڈ اور میرے ارمانوں کا خون شامل ہے۔ تو پڑھیے اور لطف اندوز ہوئیے۔

ٹوٹ بٹوٹ اور فیسبک

ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
باپ تھا اس کا میر سلوٹ
پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
کھاتا تھا بادام اخروٹ

اک دن اس کی شامت آئی
فیسبک پر نظر دوڑائی

جھٹ سے اک کھاتہ کھلوایا
کئی لوگوں کو دوست بنایا

پھر تو اس کو جب بھی دیکھا
فیسبک پر مصروف ہی پایا

زندگی کٹ رہی تھی یوں ہی
اک دن دوست نے چٹھی بھیجی

فیسبک نے کیا کام برا تھا
اس پر کچھ تو کرنا ہی تھا

گستاخانِ رسول کی جو
اس نے سرپرستی کی تھی

اس پر کسی طرح کی تو
کارروائی کرنی ہی تھی

دوست بولا کرو بائیکاٹ
فیسبک سے لو تعلق کاٹ

گر سب اس سے رشتہ توڑیں
پھر نہ کریں گے ہمت ایسی

ٹریفک ہوگی اتنی کم کہ
ہو جائے گی ایسی تیسی

ٹوٹ بٹوٹ نے یہ سوچا کہ
بات تو ہے یہ بڑے پتے کی

سب مسلم جو متحد ہو گئے
نہ کرے گا کوئی ہمت ایسی

فوراً اس نے فیسبک چھوڑی
یاروں کو بھی دعوت ٹوری

گر ہوتا کامیاب بائیکاٹ
فیسبک کی لگ جاتی واٹ

قوم گر متحد ہو جاتی
گستاخوں کو عقل آ جاتی

لیکن حقیقت میں جو ہوا
ٹوٹ بٹوٹ نے سوچا نہ تھا

کچھ ہی روز ابھی گزرے تھے
اکثر لوگ صبر کھو بیٹھے

کچھ ہی رہے میداں میں ڈٹ کر
باقی سب واپس کو بھاگے

مہم ہو گئی ناکام ساری
کئی لوگوں نے ڈنڈی ماری

ٹوٹ بٹوٹ اب بیٹھا سوچے
دھیرے دھیرے خود سے بولے
سوچا کیا تھا، کیا ہو گیا رے
تیرے ساتھ تو فراڈ ہو گیا رے

"ہمیں اپنوں نے لوٹا، غیروں میں کہاں دم تھا
میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا"