جمعہ، 26 جولائی، 2013

پے بیک ٹائم!

یہ پاکستان میں ایک عام مسئلہ ہے کہ شریف خواتین، جنہوں نے اپنی ضروریات کے لیے موبائل فون رکھے ہوتے ہیں، کو ایک دن اچانک اوباش قسم کے نوجوانوں کی طرف سے فضول پیغامات آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض [سینسدڑ اسمائے صفت] لڑکے تو کال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اکثر ایسے مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا الٹا اس خاتون پر غصہ نکالا جاتا ہے کہ تمہیں موبائل کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کوئی جوابی کارروائی کرے تو زیادہ سے زیادہ بھائی صاحب کے ذریعے تڑی لگا دی جاتی ہے کہ اب نہ آئے کال۔ کسی کے تعلقات ہوں تو وہ اس نمبر کے مالک کا پورا شجرۂ نصب بھی نکال لیا کرتے ہیں لیکن یہ عیاشی ہر کسی کو میسر نہیں ہوتی۔ مہذب معاشروں میں ایسے کام کے لیے پولیس ہوا کرتی ہے لیکن یہاں پولیس کے عمومی رویے کی وجہ سے لوگ ایسے مسائل کی رپورٹ درج کرانے سے بھی کتراتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نامعلوم والدین کے جنے یہ نامعلوم افراد بلا خوف و خطر دندناتے پھرتے ہیں۔
ایک شریف آدمی کا دل ایسی صورت حال کو دیکھ کر بہت کڑھتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ان کے خلاف کچھ کارروائی ہونی چاہیے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ترجیحات میں قانون کا نفاذ شامل نہ ہونا دیکھ کر خود کو بے بس و لاچار محسوس کرتا ہے۔
ایسے میں مجھے ایک خیال آیا۔ کیوں نہ ان لوگوں کے ساتھ وہی (یا حسبِ توفیق اس سے بھی "بڑھیا") سلوک کیا جائے جس طرح یہ لوگ شریف خواتین کو تکلیف پہنچاتے ہیں؟ ایک ویب سائٹ بنائی جائے جہاں ایسے لوگوں کے نمبر اکٹھے کیے جائیں جس طرح یہ لوگ لڑکیوں کے نمبر ویب سائٹس پر جمع کرتے ہیں۔ اور منادی لگا دی جائے کہ اب سب لوگ ان [سینسرڈ اسمائے صفت] لڑکوں کا حسبِ توفیق بلاتکار کریں۔
بہت سے لوگوں کو ان کے اندر کی اچھائی اپنی حدود کے اندر رکھتی ہے۔ لیکن بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ڈنڈے کے زور سے سیدھا رکھنا پڑتا ہے۔
آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ کیا ایسا کیا جانا چاہیے یا ہمارے پاس کوئی اس سے بہتر متبادل موجود ہے؟