بدھ، 25 دسمبر، 2013

ہماری منطق، یہ پیاری منطق

کل چھت پر دھوپ سینکتے ہوئے مطالعہ کر رہا تھا کہ پاس کھڑے کچھ لڑکوں کی گفتگو کی طرف توجہ گئی جو کہ پرسوں طالبات کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال پر اپنی ماہرانہ رائے کا تبادلہ کر رہے تھے۔ یوں تو ہڑتال کی وجہ بننے والے مسائل اور بھی تھے لیکن میں نے ہر طرف لوگوں کو صرف ایک ہی نکتہ پکڑ کر اس کی حمایت کرتے پایا جو کہ تھا پانچ بجے کے بعد ہاسٹل سے باہر نکلنے پر پابندی والا۔ شاید یہ "اسلامی" کہلوانے کے شوقینوں کا پسندیدہ نکتہ تھا، اس لیے۔ یہاں بھی وہی صورت حال تھی۔ فرمانے لگے کہ لڑکیوں کو پانچ بجے کے بعد باہر جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کون سے کام کرنے ہوتے ہیں انہوں نے؟ میں خاموشی سے سنتا رہا کیونکہ مجھے اپنا سکون سے مطالعہ کرنا زیادہ عزیز تھا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ان کی گفتگو کا رخ کل چہلم پر لاگو ہونے والی موبائل فون بندش کی جانب مڑ گیا۔ اچانک کہنے لگے کہ پابندی تو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہیں جی؟ کیا کہا؟ پابندیاں مسائل کا حل نہیں؟ لیکن کچھ دیر پہلے تو آپ حضرات کچھ اور ہی فرما رہے تھے۔ یہ اچانک یوٹرن میرے سادہ سے دماغ کے لیے اتنا پیچیدہ معمہ تھا کہ اس کے بعد آدھا گھنٹہ میں اسی کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ کیا کہہ کر گئے ہیں، اور ایسی کون سی منطق ہوتی ہے کہ جس کے تحت دوسروں کے معاملے میں ہر قسم کے مسئلے کا حل ایک نئی پابندی ہو جبکہ اپنے معاملے میں پابندی کسی بھی مسئلے کا حل نہ ہو۔ کہیں یہ وہی منطق تو نہیں جسے منافقت کہتے ہیں؟ o_O