منگل، 6 جنوری، 2015

اعتزاز حسن کی یاد میں


کچھ زیادہ نہیں، بس ایک سال پہلے کی بات ہے۔ ضلع ہنگو میں 6 جنوری 2014ء کی صبح تھی۔ جب اعتزاز حسن نامی ایک بہادر لڑکے نے اپنے سکول کی طرف بڑھتے ہوئے ایک خودکش حملہ آور کو روکا تھا۔ کئیوں کی جان بچائی اور اپنی جان قربان کر دی۔ اس کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ حملہ آور کسی اور کو نقصان پہنچا دے۔
جان قربان کر دینا۔۔۔ کہنے میں کتنا آسان لگتا ہے۔ لیکن حقیقت میں انتہائی بھاری۔ اس کیفیت کو صحیح معنوں میں وہی سمجھ سکتا ہے جو اس لمحے کے اندر یہ فیصلہ کرتا ہے۔ کہ کوئی مقصد اتنا بڑا ہے جس کی اہمیت اس کی جان سے بھی زیادہ ہے۔
اور مقصد بھی کیا خوب! کسی اور کی زندگی کی حفاظت۔ کہ اسے ایک اور موقع مل جائے جینے کا۔ بچنے والے کے لیے تو یہ ساری کائنات جتنا فرق ہوتا ہے۔ یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
اس دنیا میں ہر ذی روح کو اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے۔ یہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے۔ ایک بار چلی جائے تو یہ نعمت دوبارہ نہیں ملتی۔ ایسی نایاب نعمت کو قربان کر دینا کوئی ایسا فیصلہ نہیں جو ہر کوئی کر سکے۔
 تبھی ایسے شخص کو ہیرو کہتے ہیں۔ اور اس کی سب عزت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ کچھ ایسا کر چکا ہوتا ہے جو عام لوگ نہیں کر سکتے۔ کچھ ایسا جو اسے انسانیت کے اعلیٰ درجوں پر لے جاتا ہے۔
پھر بے شک اس عمل میں اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے، اس فانی دنیا میں اس کا وجود ختم ہو جائے۔ لیکن اس کی قربانی ہی کئی لوگوں کی زندگی کا، ان کے باقی رہ جانے کا سبب بنتی ہے۔ اور اس کے لیے وہ انتہائی عزت و تکریم کا حق دار ہے۔