چند ہی دن پہلے ایک جگہ کسی کا اعتراض پڑھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے علمی زوال میں امام غزالی کا اہم کردار ہے۔
دو وجوہات نے مجھے اس معاملے کی تہہ میں جانے پر اکسایا۔ ایک تو یہ کہ اس طرح مجھے تاریخ کے متعلق کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ دوم یہ کہ اتنی بڑی بات کو بغیر تحقیق قبول کر لینا کوئی علم دوست رویہ نہیں۔
پہلا مرحلہ تھا دعوے کا تجزیہ کرنا جس کے نتیجے میں اپنی آسانی کے لیے میں نے اسے ان دو حصوں میں تقسیم کیا۔
اول یہ کہ امام غزالی نے ریاضی کو ایک شیطانی کھیل قرار دیا۔
دوم یہ کہ امام غزالی کی وجہ سے مسلمان سائنس سے دور ہو گئے۔
پہلے حصے کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں اپنی تاریخ سے عدم واقفیت کے باعث کافی محنت کرنی پڑی۔ لیکن آخر کار مجھے کہیں سے امام غزالی کی احیاء العلوم کا اردو ترجمہ مل گیا جس کی پہلی جلد میں مجھے یہ متن ملا۔
"غیر شرعی علوم:
غیر شرعی علوم کی بھی تین اقسام ہیں
(۱) پسندیدہ علوم
(۲) ناپسندیدہ علوم
(۳) مباح علوم
پسندیدہ علوم وہ ہیں جن سے دنیاوی زندگی کے مصالح وابستہ ہیں جیسے علمِ طب اور علمِ حساب۔ ان میں سے بعض علوم فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض صرف اچھے ہیں، فرض نہیں ہیں۔ فرضِ کفایہ وہ علوم ہیں جو دنیاوی نظام کے لیے ناگزیر ہیں۔ جیسے طب تندرستی اور صحت کی سلامتی کے لیے ضروری ہے، یا حساب کہ خرید و فروخت کے معاملات، وصیتوں کی تکمیل اور مالِ وراثت کی تقسیم وغیرہ میں لازمی ہے۔ یہ علوم ایسے ہیں کہ اگر شہر میں ان کا کوئی جاننے والا نہ ہو تو تمام اہلِ شہر کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم ان میں سے اگر ایک شخص بھی ان علوم کو حاصل کر لے تو باقی لوگوں کے ذمے سے یہ فرض ساقط ہو جاتا ہے۔
یہاں اس پر تعجب نہ کرنا چاہیے کہ صرف طب اور حساب کو فرضِ کفایہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ ہم نے جو اصول بیان کیے ہیں، اس کی روشنی میں بنیادی پیشے جیسے پارچہ بافی، زراعت اور سیاست بھی فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلکہ سینا پرونا اور پچھنے لگانا بھی فرضِ کفایہ ہیں، کہ اگر شہر بھر میں کوئی فاسد خون نکالنے والا نہ ہو تو جانوں کی ہلاکت کا خوف رہتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جس نے بیماری دی ہے، اس نے دوا بھی اتاری ہے اور علاج کا طریقہ بھی بتلایا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم ان سے فائدہ اٹھائیں؟ بلا وجہ اپنے آپ کو ہلاکت کی نذر کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے پچھنے لگانے کا علم بھی فرضِ کفایہ ہے۔ یہاں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ طب اور حساب کا صرف وہ حصہ فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے انسانی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ طب اور حساب کی باریکیوں کا علم محض پسندیدہ ہے، فرضِ کفایہ نہیں ہے۔
غیر شرعی علوم میں ناپسندیدہ علوم یہ ہیں: (۱) جادوگری، (۲) شعبدہ بازی، (۳) وہ علم جس سے دھوکہ ہو وغیرہ۔
مباح علوم یہ ہیں: (۱) شعر و شاعری اگر وہ اخلاق سوز نہ ہو، (۲) تاریخ یا دیگر تاریخی علوم۔
ان صورتوں کی روشنی میں دوسرے ناپسندیدہ یا مباح علوم و فنون کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔"
میرے خیال میں اتنا اقتباس کافی ہوگا امام غزالی کے دنیاوی علوم پر نظریات کو سمجھنے کے لیے۔ اس لیے اب اگلے مرحلے کو چلتے ہیں۔
اگر مسلمانوں نے سائنسی علوم کو امام غزالی کی وجہ سے چھوڑا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام غزالی کے بعد والے دور میں مسلمانوں میں دو چار ناموں کے علاوہ کوئی بڑا سائنس دان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملنا چاہیے۔
چنانچہ اس کے لیے میں نے مشہور مسلمان سائنس دانوں کی فہرستیں چھاننی شروع کیں۔ ان میں سے چونکہ وکیپیڈیا والی فہرست کو چھاننا دوسروں کی نسبت زیادہ آسان تھا، اس لیے اسی کا انتخاب کیا۔ اگرچہ دیگر کتب میں ملنے والے کچھ نام مجھے اس فہرست میں نہ مل پائے۔ لیکن یہ سوچتے ہوئے کہ اتنی طویل فہرست کے ہوتے ہوئے ان پانچ چھے ناموں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، میں نے وکیپیڈیا کی آسانی کو ترجیح دی۔
فہرست کی طوالت کی وجہ سے میں نے اپنی توجہ صرف فلکیات دانوں، ریاضی دانوں، طبیعیات دانوں اور انجنئیروں والے زمروں تک محدود رکھی (شاید اپنے ذاتی شوق کی وجہ سے)۔ اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ امام غزالی کی وفات (1111ء) کے بعد ان میں سے کون کون پیدا ہوا تھا۔