بدھ، 26 جنوری، 2011

فیسبکیوں کے نام ایک پیغام، ایک تجویز

میرے عزیز فیسبکیے دوستو! السلام علیکم۔

تم کو یاد ہوگا جب فیسبک انتظامیہ کے ڈرا محمد پیج کو ہٹانے سے انکار پر فیسبک کے بائیکاٹ کی باتیں ہو رہی تھیں تو تم میں سے کچھ نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے فیسبک سے بالکل غائب ہونے پر ان کی نمائندگی ختم ہو جائے گی جس سے ایسی حرکات کا راستہ روکنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ تب مجھے اس بات میں وزن نظر آیا چنانچہ میں اپنا کھاتہ حذف کرنے سے رک گیا۔ صرف استعمال بند کر دیا کہ بعد میں جو صورتِ حال پیدا ہوگی، اس کی مناسبت سے فیصلہ کروں گا۔

جب بائیکاٹ والی بات کو کچھ عرصہ گزر گیا تو میں نے دیکھنے کا فیصلہ کیا کہ کیا صورتِ حال ہے۔ اور مجھے یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کہ جو لوگ "مسلمانوں کی نمائندگی" کے نام پر فیسبک پر رہ گئے تھے (اور جو صبر کا دامن چھوڑ کر واپس آ گئے تھے)، ان کی اکثریت کوئی بھی ایسا کام نہیں کر رہی تھی جس سے واقعی مسلمانوں کی نمائندگی ہو۔ بلکہ ایک بڑی تعداد تو اس کا بالکل متضاد کرتی نظر آئی۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ لیکن ابھی بھی میں کھاتہ مستقل طور پر حذف کرنے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا۔

پھر کچھ مزید دن گزرے اور میں نے یہ ویڈیو دیکھی جس میں ایک نومسلم اپنے مسلمان ہونے کا قصہ سنانے کے بعد اپنے اڑوس پڑوس میں رہنے والے مسلمانوں سے اس بات کا شکوہ کر رہا تھا کہ ان کے پاس اس کے سوال کا جواب تھا لیکن انہوں نے کبھی اسے اس کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی۔

http://www.youtube.com/watch?v=IYMKQKSV0bY

اسے دیکھنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہم لوگ سوشل نیٹورکنگ کو تبلیغ، یا کم از کم غیر مسلموں کی اسلام میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے تو استعمال کر سکتے ہیں۔

لیکن فی الحال میں نے جن لوگوں کو اس کام کی کوشش کرتے دیکھا ہے، ان میں اکثر کوئی خاص کامیاب ہوتے نظر نہیں آئے۔ کچھ لوگ غیر مسلموں کو خوش کرنے کے چکر میں اسلام کا حلیہ ہی توڑ مروڑ کر کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کے لیے اس کے بارے میں مزید جاننے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی۔ کچھ لوگ معذرت خواہانہ رویہ استعمال کرتے ہیں جیسے ان کا مسلمان ہونا کوئی بڑی غلطی ہو۔ جبکہ کچھ لوگ ان سے بات بات پر مناظرے شروع کر دیتے ہیں جس سے غیر مسلم دفاعی رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے مؤقف پر اس سختی سے جم جاتے ہیں کہ ان کی کسی بھی بات کو توجہ سے نہیں سنتے۔ ان کی یہ کوشش ہو جاتی ہے کہ کسی بھی قیمت پر مخالف کی ہر بات کو رد کیا جائے۔

میرے ذہن میں کچھ اس قسم کا نقشہ ہے۔

مثال کے طور پر جو لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں، ایک یا ایک سے زائد غیر مسلموں کو اپنے دوستوں میں شامل کر لیں۔  ہر ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ بعد کوئی آیت یا کوئی حدیث ایسی چن کر اپنے سٹیٹس میں لگا دیں جس کا تعلق بنیادی اخلاق سے ہو۔ چونکہ ہم یہ ان لوگوں کو دکھانے کے لیے لگا رہے ہیں جن کو اسلام کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں، اس لیے بنیادی باتوں سے ابتداء کرنا ہی درست ہوگا (اور اس میں لمبی بحث چھڑنے کا خطرہ بھی کم ہوگا)۔ مثلاً جو آیات یا احادیث معاشرتی معاملات کے متعلق ہیں، خوش اخلاقی کا درس، جھوٹ سے پرہیز وغیرہ۔ میں فل ٹائم مبلغ بننے کی بات نہیں کر رہا۔ بس اپنی معمول کی سرگرمیوں کے دوران تھوڑا سا وقت ادھر لگا دیا کریں۔ اس طرح انہیں یہ بھی محسوس نہیں ہوگا کہ "اوہو! یہ تو تبلیغی پیچھے پڑ گئے"۔ :)

کبھی کبھار ایسا موقع بھی آئے گا کہ وہ کسی بات پر اعتراض کریں گے اور اسلام کے متعلق اپنی کسی غلط فہمی کی بنیاد پر کوئی اوٹ پٹانگ قسم کی بات کریں گے۔ ایسے مواقع پر معذرت خواہانہ رویے اور دین کو توڑنے مروڑنے سے الٹا نقصان ہوگا چاہے آپ یہ تبلیغ کے لیے کر رہے ہیں یا صرف مسلمانوں کے امیج کے لیے۔ اکثر اوقات جواب دینا بہت آسان ہوگا اگر آپ ٹھنڈے دماغ سے کام لیتے ہیں۔ اگر مناسب لگے تو ان کو یہ دعوت بھی دے دیا کریں کہ وہ قرآن مجید کو ایک بار پورا پڑھ کر دیکھ لیں۔ بعض مواقع پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اسلام کے متعلق عام پوچھے جانے والے سوالات پر لکھی گئی کتاب بھی مفید رہے گی(یہ آپ کو irf.net پر مل جائے گی)۔ اور یاد رکھیں کہ ہمیشہ اپنا مزاج ٹھنڈا رکھیں۔ غصہ اچھے بھلے کام بگاڑ دیتا ہے۔ یہ بھی کبھی نہ بھولیں کہ یہ کام آپ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے لیے کر رہے ہیں۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ اسلام دنیا میں پھیلا کیسے تھا۔ بہت سے علاقوں میں اسلام، مسلمان تاجروں کی وجہ سے پھیلا تھا۔ جب وہ وہاں جاتے تو وہاں کے رنگ میں نہیں ڈھلتے تھے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے اخلاق کے معیارات نہیں بدلتے تھے۔ نہ مقامی لوگوں کے پاس جا کر مسلمانوں کے کچھ مخصوص گروہوں کی برائیاں کر کے کہتے تھے کہ اصل اسلام پر تو میں ہوں۔ نہ ہی اسلام کے متعلق ان کا رویہ معذرت خواہانہ ہوتا تھا۔ اپنی مرضی سے اسلام کو سیکولر یا کمیونسٹ وغیرہ نہیں بنا ڈالتے تھے بلکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقوں پر قائم رہتے تھے۔ چنانچہ جب وہاں کے مقامی لوگ ان کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھتے تو خود متوجہ ہوتے کہ آخر اس کے اتنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ کیا ہے۔ پھر ان میں سے بہت سے لوگ اس دین سے متاثر ہو کر اسے اختیار بھی کر لیتے۔

ہمیں بھی ویسا ہی اچھا مسلمان بننا ہوگا اور اپنے ساتھیوں کی بھی اچھے مسلمان بننے میں مدد کرنی ہوگی۔ اور ایسا بھی نہ ہو کہ غیر مسلموں کی تو ہمیں فکر ہو اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ہم بھول جائیں۔ دونوں طرف توجہ دینی ہے۔ دونوں کا ہم پر حق ہے۔ میرے اس نسخے کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ غیر مسلم چاہے اسلام کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو، لیکن اس بہانے ہمیں خود اور دیگر مسلمان دوستوں کو ان اسباق کی یاد دہانی ہوتی رہے گی جو ہم کافی عرصہ پہلے پڑھ کر بھول گئے ہیں۔

چنانچہ آج سے کوشش کریں کہ خود بھی اچھے مسلمان بنیں، اپنے عزیزوں اور دوستوں کی بھی مدد کریں، اور اللہ کا پیغام ان تک بھی پہنچائیں جن تک ابھی نہیں پہنچا۔ یہ سب سے زیادہ ہمارے اپنے لیے ہی مفید ہے۔

دنیاوی فائدہ اور کوئی نہیں تو کم از کم آپ کے پاس فیسبک استعمال کرتے رہنے کا جواز تو پیدا ہو ہی جائے گا اور ساتھ ہی مسلمانوں کی نمائندگی کا طریقہ بھی درست ہو جائے گا۔ :p

اضافہ (2 فروری 2011): اگر میری تجویز پر عمل نہ کرنا چاہیں تو کم از کم ایک کام تو کر ہی سکتے ہیں۔ کہ فیس بک پر آنے والے اشتہارات پر کلک نہ کریں جن کے ذریعے فیس بک کمائی کرتا ہے۔

3 تبصرے:

  1. بہت اچھے طریقے سے آپ نے سوشل نیٹ ورکس پر دین کی تبلیغ کا طریقہ بتایا ہے ، جو لوگ وہاں جاتے ہیں انکے لیے اس پر عمل کرنا بھی کچھ مشکل نہین ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاللہ بہت اچھِی تحریر ہے۔۔۔۔میں تو سوشل نیٹ ورکس دوستوں سے رابطہ کے لیے استعمال کرتا ہوں۔۔۔۔۔فیس بک استعمال کرنا اس وقت چھوڑ دیا تھا اور پیچھلے دنوں اپنا کھاتہ بھی ختم کر دیا۔

    جواب دیںحذف کریں