اتوار، 28 فروری، 2010

چیونٹی نامہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔


چیونٹی سے ہمارا واسطہ تقریبا ہر روز پڑتا رہتا ہے لیکن عام طور پر لوگ اسے نظر انداز کر دیا کرتے ہیں۔ آئیے آج ہم چیونٹیوں کی دنیا کی سیر کو چلتے ہیں اور ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔


ابتداء کرتے ہیں اس چیونٹی سے جو سامنے فرش پر دوڑ رہی ہے۔ ذرا غور کیجیے گا کہ کیسے اس نے اپنی جسامت سے کہیں بڑا دانہ اٹھا رکھا ہے اور اتنے بوجھ کو اٹھا کر بھی اس کی رفتار قابلِ دید ہے۔ (اپنے حجم کے لحاظ سے) اتنی رفتار سے تو کوئی انسان پاگل کتے سے بچنے کے لیے بھی شاید ہی دوڑ لگاتا ہو، چہ جائیکہ اپنی ذمہ داریوں کے معاملے میں اتنی لگن دکھائے۔ جبکہ اس چیونٹی کی کام کی لگن کا یہ عالم ہے کہ جتنی تیزی سے دوڑ سکتی ہے، دوڑے جا رہی ہے۔
اب ذرا اس کے راستے میں ایک رکاوٹ رکھ دیجیے۔ دیکھیے، کیسے یہ بے چینی سے اس کے پار جانے کا راستہ ڈھونڈتی ہے۔ رکاوٹ کو کام چوری کا بہانہ نہیں بناتی۔ ذرا سی دیر کو بھی رکے بغیر، اپنے سے سینکڑوں گنا بڑی رکاوٹ کو دیکھ کر ہمت ہارے بغیر، رکاوٹ کو عبور کرنے میں لگ جاتی ہے۔ اگر رکاوٹ کو پار نہیں کر پاتی تو پھر سے کوشش کرتی ہے۔ بار بار کوشش کرتی رہتی ہے جب تک کہ اس رکاوٹ کو عبور نہ کر لے۔ اور اس مشقت کے بعد بھی اپنی ساتھی چیونٹیوں کا اتنا خیال کہ رکاوٹ کے پار جانے کے راستے کو نشان زد کر دیتی ہے تاکہ ان کو اس مشقت سے نہ گزرنا پڑے جس سے اس کو گزرنا پڑا۔
Calvin and Hobbes look at ants
Calvin and Hobbes looking at ants. Image credits: Bill Watterson.


یہاں پر، اگر آپ کو معلوم نہیں تو، بتاتا چلوں کہ چیونٹیوں کا خوراک کا انتظام کرنے کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے۔ پہلے چیونٹیاں الگ الگ خوراک کے ذخائر کی تلاش میں مختلف سمتوں میں پھیل جاتی ہیں۔ پھر جب کسی چیونٹی کو کوئی ذخیرہ ملتا ہے تو وہ وہاں سے واپسی پر اس تک رسائی کے راستے کو مخصوص کیمیائی مادوں کے ذریعے نشان زد کر آتی ہے۔ ان کیمیائی مادوں کی مدد سے دوسری چیونٹیاں وہاں تک پہنچتی ہیں اور وہ بھی واپسی پر راستے کو نشان زد کرتی ہیں جس سے نشان مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ یہ کیمیائی نشانات آہستہ آہستہ منتشر ہو جاتے ہیں چنانچہ گہرا نشان پیچھے آنے والی چیونٹیوں کے لیے ایک طرح کا پیغام ہے کہ اس راستے پر خوراک کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
تو ہم چیونٹی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ جوں جوں چیونٹی بل کے زیادہ قریب پہنچتی جاتی ہے، ہمیں مزید چیونٹیاں بھی راستے میں ملتی ہیں جو کہ سب کی سب اپنے کام میں مگن ہیں۔ کوئی بھی فارغ کھڑی ہوئی نہیں ملتی حتیٰ کہ دو لمحوں کو بھی کوئی نہیں رکتی۔ ہر ایک پر کام کا بھوت سوار ہے۔ «کام، کام اور بس کام» کا نعرہ تو ہم لگاتے ہیں لیکن عمل اس پر یہ ننھی ننھی چیونٹیاں کر رہی ہیں۔ ایک طرف ہم انسان خود کو بس اشرف المخلوقات کہہ کر دل خوش کر لیتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہیں کہ خود کو اس خطاب کا اہل ثابت کر سکیں۔ جبکہ دوسری طرف یہ ننھی ننھی چیونٹیاں نہ نعرے لگاتی ہیں اور نہ ہی اپنی صلاحیتوں پر کسی قسم کا کوئی غرور کرتی ہیں۔ لیکن ہر چیز سے بے نیاز محنت و مشقت میں لگی ہوئی ہیں تاکہ اپنی کالونی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکیں۔
کام کے دوران کبھی کبھار کوئی چیونٹی کسی حادثے کا شکار ہو کر زخمی ہو جاتی ہے تو دوسری چیونٹیاں نہ تو یہ سوچ کر اس کو نظر انداز کرتی ہیں کہ «شکر ہے میں بچ گیا/گئی۔ جان عزیز ہے تو اسے دفع کرو اور پتلی گلی سے نکل لو!» اور نہ ہی اس کے گرد تماشہ دیکھنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ بلکہ فورا قریب سے گزرنے والی کوئی چیونٹی مدد کو پہنچتی ہے اور اسے اٹھا کر کالونی کی طرف لے جاتی ہے۔

اب ہم کالونی کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔ بل کے اندر داخل ہوتے ہی ہمیں ایک عظیم الشان انتظامی ڈھانچہ نظر آتا ہے۔ چھوٹی بڑی بے شمار چیونٹیاں اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ کچھ خوراک جمع کرنے کا کام کر رہی ہیں، کچھ ملکہ کا خیال رکھنے میں مصروف ہیں، کسی کے ذمے کالونی کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری ہے، کوئی خوراک کو کارکنوں تک پہنچانے میں مصروف ہے تو کوئی کالونی کی حفاظت پر مامور ہے۔ طرح طرح کی چیونٹیاں، مختلف ذمہ داریاں، لیکن مقصد ایک ہی کہ کالونی کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے۔ ان کے نزدیک نہ کوئی کام بڑا ہے اور نہ کوئی کام چھوٹا۔ یہ خیال کسی کے ذہن میں نہیں آتا کہ میں جو کام کر رہا/رہی ہوں، وہ تو میرے شایانِ شان نہیں۔ نہ ہی کام کی زیادتی کی کوئی شکایت کسی کے لبوں پر آتی ہے۔ سب ہی بس اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے کالونی کو طاقت ور اور مضبوط تر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔


یوں تو چیونٹیوں کی اس دنیا میں اور بھی کئی چیزیں قابلِ دید اور قابلِ غور ہیں لیکن ان سب کا احاطہ اس مختصر سی سیر میں ممکن نہیں۔ چنانچہ آج کی اپنی سیر کو یہیں پر ختم کرتے ہیں، اس نصیحت کے ساتھ کہ اپنے آس پاس کی دنیا پر غور و فکر کیا کریں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ کو اس کی نشانیوں پر غور و فکر کرنے والے بندے پسند ہیں اور دوسرا یہ کہ بعض اوقات بظاہر چھوٹی چھوٹی اور معمولی سی چیزوں میں ہمارے لیے بہت بڑے بڑے اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں۔


بلا شبہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔

4 تبصرے:

  1. بہت شکریہ واقعی کسی نے صحٰیح کہا کہ انسان ہر کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. انکل ٹام، محمد طارق راحیل: حوصلہ افزائی کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ميں نے کبھی چيونٹی کو نظر انداز نہيں کيا ۔بچپن ميں چيونٹی کی بہت سی عادات کا مشاہدہ کرتا تھا

    جواب دیںحذف کریں