جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، بلندی کے خوف نے غالباً میرے دل میں تب جگہ بنائی تھی جب میں بچپن میں ایک بار چھت سے کودتے ہوئے پھسل کر کافی سخت چوٹ لگوا بیٹھا تھا۔ حالانکہ اس سے پہلے میں درجنوں بار اسی جگہ سے کامیابی کے ساتھ چھلانگ لگا چکا تھا۔ لیکن نہ جانے یہ چوٹ کی شدت تھی یا بڑوں کا گھبراہٹ میں دیا شدید ردِ عمل کہ اس کے بعد میں کبھی ایسی جگہ سے چھلانگ لگانا تو دور کی بات، اس کے کنارے پر کھڑے ہوتے ہوئے بھی خوف محسوس کرنے لگا۔
کل چند دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں لگے میلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک دیوار سی بنائی ہوئی تھی جس پر لوگ چڑھ کر اپنا کوہ پیمائی کا شوق کچھ حد تک پورا کر رہے تھے (انگ+ریزی میں بولے تو وال کلائمبنگ)۔ میں نے پہلے چند ایک بار یہ چیز دیکھی تو تھی لیکن پہلے کبھی خود دیوار پیمائی کا موقع نہ ملا تھا۔ اس بار سوچا کہ کسی دوست کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ حفاظتی رسیاں باندھنے لگے تو مجھ پر پھر سے وہی بلندی کا خوف غالب ہونے لگا۔ تھوڑے تھوڑے پسینے بھی چھوٹنے لگے اور ہلکی سی لرزش بھی محسوس ہوئی ہاتھوں پیروں میں۔ لیکن نہ جانے اس وقت میرے ذہن میں کیا سمائی کہ اس چیز نے مجھے چیلنج قبول کرنے پر مزید اکسایا۔ شاید اتنا طویل عرصہ بلندیوں سے خوف زدہ رہنے کے بعد میں تھک چکا تھا۔ چنانچہ اللہ کا نام لے کر اوپر چڑھنا شروع کیا۔تین چوتھائی فاصلہ طے کرنے کے بعد ہاتھوں پر پسینہ آنے لگا اور پاؤں کچھ کچھ بے قابو سے ہونے لگے۔ لیکن یہاں سے واپسی نہ صرف اپنی بے عزتی بلکہ خوف کے سامنے ہار ماننا بھی تھا۔ چنانچہ توجہ اپنے خوف سے ہٹاتے ہوئے اوپر بڑھنے پر لگانے کی کوشش کرتا رہا اور کسی نہ کسی طرح اوپر پہنچ کر گھنٹی بجا ہی دی۔ نیچے اترتے ہوئے گرنے جیسی کیفیت کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑا۔ واپس زمین پر پہنچتے پہنچتے کافی تھک چکا تھا کہ اتنے پرانے خوف سے لڑنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن تھوڑی دیر پہلے کی نسبت بہت بہتر محسوس کر رہا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ یہ کوئی اتنا بڑا غیر معمولی کارنامہ نہیں کہ جس پر میں بغلیں بجا سکوں اور خو کو کوئی بڑی توپ چیز قرار دے سکوں۔ لیکن اس نے مجھے یہ اعتماد ضرور دلایاہے۔۔۔ کہ اگلی بار خوف سے نجات کے راستے پر، جو رکاوٹ عبور کروں گا، وہ کم از کم اس سے بڑی ہوگی۔
کل چند دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں لگے میلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک دیوار سی بنائی ہوئی تھی جس پر لوگ چڑھ کر اپنا کوہ پیمائی کا شوق کچھ حد تک پورا کر رہے تھے (انگ+ریزی میں بولے تو وال کلائمبنگ)۔ میں نے پہلے چند ایک بار یہ چیز دیکھی تو تھی لیکن پہلے کبھی خود دیوار پیمائی کا موقع نہ ملا تھا۔ اس بار سوچا کہ کسی دوست کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ حفاظتی رسیاں باندھنے لگے تو مجھ پر پھر سے وہی بلندی کا خوف غالب ہونے لگا۔ تھوڑے تھوڑے پسینے بھی چھوٹنے لگے اور ہلکی سی لرزش بھی محسوس ہوئی ہاتھوں پیروں میں۔ لیکن نہ جانے اس وقت میرے ذہن میں کیا سمائی کہ اس چیز نے مجھے چیلنج قبول کرنے پر مزید اکسایا۔ شاید اتنا طویل عرصہ بلندیوں سے خوف زدہ رہنے کے بعد میں تھک چکا تھا۔ چنانچہ اللہ کا نام لے کر اوپر چڑھنا شروع کیا۔تین چوتھائی فاصلہ طے کرنے کے بعد ہاتھوں پر پسینہ آنے لگا اور پاؤں کچھ کچھ بے قابو سے ہونے لگے۔ لیکن یہاں سے واپسی نہ صرف اپنی بے عزتی بلکہ خوف کے سامنے ہار ماننا بھی تھا۔ چنانچہ توجہ اپنے خوف سے ہٹاتے ہوئے اوپر بڑھنے پر لگانے کی کوشش کرتا رہا اور کسی نہ کسی طرح اوپر پہنچ کر گھنٹی بجا ہی دی۔ نیچے اترتے ہوئے گرنے جیسی کیفیت کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑا۔ واپس زمین پر پہنچتے پہنچتے کافی تھک چکا تھا کہ اتنے پرانے خوف سے لڑنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن تھوڑی دیر پہلے کی نسبت بہت بہتر محسوس کر رہا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ یہ کوئی اتنا بڑا غیر معمولی کارنامہ نہیں کہ جس پر میں بغلیں بجا سکوں اور خو کو کوئی بڑی توپ چیز قرار دے سکوں۔ لیکن اس نے مجھے یہ اعتماد ضرور دلایاہے۔۔۔ کہ اگلی بار خوف سے نجات کے راستے پر، جو رکاوٹ عبور کروں گا، وہ کم از کم اس سے بڑی ہوگی۔
بس جب بندہ پھنس جاتا ہے تو بہادری تو دکھانا پڑتی ہے نا
جواب دیںحذف کریںیار یہ کیپچا تو ہٹا دو
آپ لوگوں کے شدید اصرار پر آخر کار کیپچا ہٹا رہا ہوں۔ لیکن سپیم کا مسئلہ واپس آنے کی صورت میں کیپچا بھی واپس لگانا پڑے گا۔ اس لیے اگر حالات مجبور کر دیں تو شکایت نہ کرنا۔ :)
جواب دیںحذف کریںاگر یہ شوخی کسی کو متاثر کرنے کیلئے تھی تو میں بالکل داد نہیں دیتا۔ خوب لکھا اور خوب پیغام دیا۔ زندہ باد۔
جواب دیںحذف کریںعمدہ انداز میں پرانے خوف کو ختم ہونے بارے میں بیان کیا.
جواب دیںحذف کریںنہیں پیارے یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔
جواب دیںحذف کریںخوف بے شک ننھاساا ہی کیوں نہ ہو۔انسان کی صلاحیتیں کھا جاتا ہے۔
آپ نے اس خوف کو شکست دی۔
اس پر آپ بغلیں بجانے کے بجائے جشن منا سکتے ہیں۔