ہفتہ، 5 اکتوبر، 2013

الٹی منطقِ مقابلہ

ذرا سوچیے کہ ایک جگہ دو فریقوں میں کسی بھی نوعیت کا مقابلہ ہے۔ چاہے وہ مارکیٹ ہو یا جنگ کا میدان۔ ان میں سے ایک فریق مسلسل اپنی صلاحیت کو بڑھاتا رہتا ہے۔ جبکہ دوسرا فریق اس کے جواب میں اپنی صلاحیت مزید گھٹاتا رہتا ہے۔ ان دونوں میں سے کس کی جیت کا امکان زیادہ ہوگا؟
آپ بھی پوچھیں گے کہ یہ کیا احمقانہ سوال پوچھ رہا ہے۔ بھلا اس بات کی بھی کوئی تک بنتی ہے کہ کوئی بندہ اپنے حریف کے مقابلے میں اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے بجائے گھٹائے؟ لیکن افسوس کہ یہی احمقانہ سوچ آج کل ہمارے معاشرے پر حاوی ہے۔ خواہ وہ ہمارے کاروباری لوگ ہوں، مذہبی طبقے کے بعض عناصر ہوں یا حکومتی سیکیورٹی ادارے۔ کسی کو یہ فکر ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک کی مارکیٹ پر حاوی ہیں تو چلو ان پر ہی پابندی لگا دینی چاہیے (بجائے اس کے کہ مقامی صنعت کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے)۔ کسی کو یہ ٹینشن ہے کہ انٹرنیٹ پر کفر و الحاد کا غلبہ ہے تو چلو بجائے اس کا مقابلہ کرنے کے انٹرنیٹ کو ہی شیطانی چرخہ قرار دے دو۔ اور کسی کی یہ سوچ ہے کہ چونکہ کوئی بھی مواصلاتی نظام دہشت گرد بھی استعمال کر سکتے ہیں تو بنیادی ٹیلیفونی کے علاوہ فوری مواصلات کے تمام ذرائع ہی بند کر دو (بجائے اپنی انٹیلیجنس کا نظام بہتر بنانے کے)۔
ان تمام مثالوں میں یہ رویہ بالکل واضح ہے۔
جن کا کام اپنی صنعت کو بہتر بنانا ہے، وہ اپنی صنعت کو کمزور رکھتے ہوئے ہی ایک طاقت ور حریف کو باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ بہتر مصنوعات کے ذریعے گاہک کے دل میں جگہ بنانے کے بجائے وہی گھٹیا چیز اسے زبردستی بیچنا چاہتے ہیں۔
جن کا کام دنیا کے کونے کونے میں دین کا پیغام پہنچانا ہے، وہ اپنا دائرہ محدود کر کے سوچتے ہیں کہ شاید اس طرح کفر و الحاد کا غلبہ کم ہو جائے گا۔ ان کا حریف گھر گھر تک اپنے نظریات کی رسائی پر کام کر رہا ہے جبکہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان تک خود چل کر آئیں۔
جن کا کام ملک کی اور ملک کے لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، وہ خود آرام سے بیٹھے ہیں جبکہ ان کے حریف مسلسل اپنی استعداد کار میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ حریف کے مقابلے میں اپنا نظام بہتر بنایا جائے اور اپنی صلاحیت بڑھائی جائے، یہ صرف مواصلاتی نظام بند کر دیتے ہیں جس سے ان کو تو تکلیف ہوتی ہی ہے جن کی حفاظت کے یہ ذمہ دار ہیں، ساتھ ساتھ ان کی اپنی استعداد کار بھی مزید کم ہو جاتی ہے۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو کوئی بعید نہیں کہ ایک دن ہم سب اپنے گھروں تک ہی محدود ہو جائیں اور کرفیو ہر شہر میں روز کا معمول بن جائیں۔
یہ صرف تین مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اگر آپ غور کریں تو یہ رویہ جا بجا نظر آئے گا۔ ایسے سکول جہاں کمپیوٹر کو کینسر سمجھا جاتا ہے، ایسے والدین جو اپنی اولاد کو باہر کے ماحول کے مقابلے کے قابل بنانے کے بجائے ان کا باہر نکلنا ہی بند کر دیتے ہیں، ایسے دفاتر جہاں کے نیٹ ورکس پر بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی بند کر دی جاتی ہیں، غرض اکثر جگہ صاحبِ اختیار شخص کو ہر مسئلے کا حل ایک نئی پابندی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہ پابندیاں مختصر مدتی پیمانے پر تو شاید تھوڑا بہت فائدہ پہنچانے کا تاثر دیتی ہوں، لیکن طویل مدتی پیمانے پر بے جا پابندیوں کا استعمال نہ صرف غیر مفید، بلکہ اکثر معاملات میں انتہائی نقصان دہ بھی ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی، اگر اتنے بڑے ہو کر اور اتنے اختیارات والی جگہ پہنچ کر بھی کسی کو ذمہ داری اٹھانا نہیں آتا، تو اسے یا تو "بڑا ہو جانا" چاہیے، یا پھر وہ ذمہ داری ہی کسی ایسے شخص کے حوالے کر دینی چاہیے جو اس کام کے لیے زیادہ اہل ہو۔

3 تبصرے:

  1. بالکل جناب سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں اور اہلیت کا استعمال کیسے کرتے ہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. دل تو اپنا بھی ایسا ہی کچھ کلس رہا ہے۔
    ٹارگٹ کلنگ ہو تو ڈبل سواری بند۔ آج ہیلمٹ نہ پہننے پر پابندی ہے کل کو اسے پہننے والے کو دیکھتے ہی گولی ماردی جائے گی۔
    دہشت گرد "کالعدم اسکائپ" استعمال کرتے ہیں اسے بھی بند کردو۔ دہشت گرد زندہ رہنے کے لیا کھانا کھاتے ہیں تو کھانے پر بھی پابندی لگا دو۔
    حرام خوروں کی نا اہلی پر اتنا غصہ ہے کہ یہ تبصرہ بھی انتہاہی بے ربط کر رہا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بالکل درست۔ ایک فضول سا محاورہ ہے پچھاوڑے ہنگے وئیر نی لاندھے
    یعنی کسی کے گھر کے پیچھے پیشاب کرنے سے بدلہ نہیں اترتا اور ہم اسی کام پر لگے ہیں

    جواب دیںحذف کریں