ہفتہ، 1 مارچ، 2014

نا-مساعد

یاد نہیں کہ کتنے سال قبل کا واقعہ ہے۔ معمول کے ایک راستے سے گزرتے ہوئے وہاں دو عدد نئے کھمبے گڑے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ وہاں ایک نیا ٹرانسفارمر نصب ہونے لگا ہے۔ چونکہ ہمارے شہر میں بجلی کی ترسیل کے کمزور نظام کے باعث ٹرانسفارمر میں آتش بازیاں ہونا معمول کی بات ہوا کرتی ہے، تو جس کے گھر یا دکان کے سامنے کی جگہ چنی گئی، اس نے پورا زور لگا دیا کہ وہاں یہ "دھماکہ خیز مواد" نصب نہ ہو پائے۔ جب ٹرانسفارمر کو کہیں اور جگہ نہ مل سکی تو ایک ہی آپشن باقی رہ گیا۔ وہ تھا وہاں موجود ایک چھوٹے سے کوچے کا داخلی راستہ۔ چنانچہ کھمبے گاڑ کر کام شروع کر دیا گیا۔ میں وہاں سے گزرتے ہوئے اکثر سوچا کرتا تھا کہ اس چھوٹی سی گلی کے مکینوں کو اس کی وجہ سے کتنی تکلیف ہوا کرتی ہوگی، کبھی کوئی بڑا سامان یہاں سے گزارنا پڑے تو وہ کیا کرتے ہوں گے، بارش میں کتنا پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔۔
کچھ دن قبل دوبارہ وہاں سے گزر ہوا تو ایک نیا منظر میرے سامنے تھا۔ چند من چلوں نے اس ٹرانسفارمر کو ہی ٹرانسفارم کر کے رکھ دیا تھا۔
عرصہ دراز پہلے ایک لطیفہ پڑھا تھا کہ نا ممکن کو ممکن کیسے بنایا جائے؟ جواب تھا، نا ممکن کا "نا" ہٹا کر۔
اس منظر کو دیکھ کر بھی محسوس ہوا کہ گلی کے چند افراد نے اپنی نا مساعد صورت حال کا "نا" ہٹا کر اسے اپنے لیے مساعد بنا لیا ہے۔ وہی راستہ جسے دیکھ کر میرے ذہن میں پہلا تاثر گلی کے مکینوں کی تکلیف کا آتا تھا، اب وہاں ایک خوبصورت دروازہ کسی تقریب کے مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے کھڑا تھا۔
جہاں ایک طرف میں اس راستے کے مسائل پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا، وہیں چند افراد کی نگاہوں نے اس میں ایک نیا موقع دیکھا، اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس طرح اس راستے کے ساتھ منسلک تمام مسائل غائب ہو گئے۔ لیکن اگر وہ بھی اپنی تمام تر توجہ اس کے سبب ہونے والی تکلیف پر ہی مرکوز رکھتے، تو مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں ایسا منظر دیکھنے کو ملتا۔
مجھے لگا کہ اس واقعے میں میرے لیے بھی ایک سبق ہے۔ جس طرح چند من چلوں نے اپنے تمام مسائل میں گھرے رہتے ہوئے بھی ایک نیا موقع ڈھونڈ نکالا، اسی طرح ہمیں بھی زندگی میں کئی مواقع ملتے ہیں جنہیں ہم ڈھونڈ سکتے ہیں اگر اپنی تمام تر توجہ مسائل و تکالیف پر مرکوز نہ رکھیں۔ جس طرح انہوں نے نا مساعد کا صرف نا نکال کر اسے مساعد میں بدلا، اسی طرح ہم بھی اپنی زندگی میں بظاہر نا مساعد نظر آنے والی کئی صورتوں کو محض نا نکال کر مساعد میں بدل سکتے ہیں۔ نہ جانے ایسے کتنے مواقع کو میں صرف اپنی توجہ منفی سمت میں مرکوز کرنے کے سبب ضائع کر چکا ہوں گا۔ امید کرتا ہوں کہ اس یاد دہانی کے بعد میری زندگی میں ایسے مواقع کے ضیاع میں کمی آئے گی۔

5 تبصرے:

  1. بہت خوب، سعد بھائی، واپسی مبارک ہو، بہت مثبت اور ہمت افزاء تحریر لکھنے پر شکریہ قبول کریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اچھے جیسے انگریزی کا محاورہ ھے کہ ہر خطرے میں ایک موقع بھی چھپا ہوتا ھے

    جواب دیںحذف کریں
  3. ویسے دیکھ کر ایک بات اور عجیب لگی، کمبختوں نے لگایابھی بہت نیچے ہے۔ مطلب اس کو تھوڑا اونچا ہی لگا دیتے ظالم۔

    لیکن تحریر بہت اعلٰی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا ہی ایک پرانا لطیفہ ہے، ایک بندہ سڑک کنارئے کھڑا تھا کہ اوپر سے گزرتے ایک پرندے نے اس پر "بیٹ" کر دی، اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اپنا سر صاف کرتے ہوئے بولا، شکر ہے بھینسیں اڑتی نہیں۔

    :)

    جواب دیںحذف کریں
  4. درست نتیجہ نکالا ہے آپ نے ۔ میری لغت میں تو ناممکن کا لفظ ہی نہیں ہے کیونکہ ہر عمل ممکن ہے ۔ صرف وقت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے بہتری کی جانب بڑھنے کے لیے سوچ کا مثبت پن ضروری ہے۔

    جواب دیںحذف کریں