جمعرات، 25 مارچ، 2010

حکومت "کمپیوٹر شیڈنگ" کی تیاری میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔


کچھ دنوں سے خبر گردش میں ہے کہ حکومت استعمال شدہ کمپیوٹرز کی درآمد پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔ سائنس کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے میں اس فیصلے کی پرزور مخالفت کرتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے لوگ حصولِ علم کے ایک سستے ذریعے سے محروم ہو جائیں گے۔ چنانچہ تعلیم کی شرح بری طرح متاثر ہوگی اور ملک کو بہت سخت نقصان پہنچے گا۔


Image: A banner in Karachi


اس موضوع پر اردو محفل میں بھی کچھ بحث ہو چکی ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=29128


میں نے سوچا کہ اب تک کے تمام نکات کو یہاں ایک جگہ پر جمع کر دوں۔


کمپیوٹر ساز کمپنیوں کے دلائل اور ان کے جوابات۔


1۔ ان پرانے کمپیوٹروں کو بازیافت (ریسائیکل) نہیں کیا جا سکتا اس لیے آلودگی پھیلتی ہے۔


جواب۔ اول تو یہ سراسر جھوٹ ہے کہ انہیں بازیافت نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر اسے سچ فرض کر بھی لیں تو زمین کے ماحول کو مزید آلودگی سے بچانے کا یہی بہتر طریقہ ہے کہ جو چیز بازیافت نہیں ہو سکتی، اسے زیادہ سے زیادہ مدت تک کام میں لائے جانے کے طریقے ڈھونڈے جائیں۔ کیونکہ خود ہی سوچیں، ان کے بقول یہ بازیافت نہیں ہو سکتے تو استعمال نہ کرنے کی صورت میں یہی طریقہ ممکن ہے کہ ان کو پھینک دیا جائے جو کہ زمین کی مجموعی آلودگی کو بڑھانے کا سبب بنے گا (اور ایسا کچرا چاہے کسی بھی ملک میں پھینکا جائے، متاثر ہم سب ہی لوگ ہوں گے)۔ ساتھ ساتھ ان کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید نئے کمپیوٹرز موجودہ ضرورت کی نسبت کہیں زیادہ تعداد میں تیار کرنے پڑیں گے جو کہ اب تک چاہے جتنے بھی ماحول دوست ہو گئے ہوں، اتنے نہیں ہوئے کہ پرانے تمام کمپیوٹروں کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ نئے کمپیوٹر بھی اسی تعداد میں بنائے جانے کو "ماحول دوستی" قرار دیا جا سکے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام ماحولیات دان استعمال شدہ چیزوں کو دوبارہ استعمال میں لانے کی نصیحت کرتے ہیں کیونکہ یہ ماحول کے لیے اچھا ہے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ میں جو لینکس آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتا ہوں، اس کی سب سے مقبول خوبیوں میں اس خوبی کا بھی اکثر ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ پرانے کمپیوٹروں کو نئے سرے سے قابلِ استعمال بناتا ہے چنانچہ دیگر نظاموں کی نسبت زیادہ ماحول دوست ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک والے خود بھی استعمال شدہ کمپیوٹروں کو دوبارہ استعمال میں لانے کو ایک خوبی اور "ماحول دوستی" قرار دیتے ہیں تو پھر ہمارے ان کمپیوٹروں کو استعمال کرنے میں کیا برائی ہے؟


اب ذرا بازار میں بکنے والے ایک عام کمپیوٹر پر نظر ڈالتے ہیں۔ سٹیل اور پلاسٹک کا ایک فریم، تانبے کے تار، پلاسٹک کے کچھ سرکٹ بورڈ، جن پر دھاتی تار اور چھوٹے چھوٹے کچھ برقی آلات ہیں۔ مانیٹر اگر سستا ہے تو کیتھوڈ رے ٹیوب والا، اور اگر مہنگا ہے تو ایل سی ڈی۔ سلیکان یا کسی اور نیم موصل مادے پر مبنی انٹگریٹڈ سرکٹس، ایک دو مقناطیسی حصے (ہارڈ ڈسک اور سپیکر) جو کہ ظاہری بات ہے کہ دھاتوں پر ہی مبنی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اگر بازیافتگی کے کارخانے لگائے جاتے ہیں تو اس کا کم از کم نوے فیصد حصہ نہایت آرام سے بازیافت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کارخانے تو لگائے جائیں ورنہ دوسری صورت میں تو نئے کمپیوٹرز کا بھی یہی مسئلہ ہوگا جو پرانے کمپیوٹرز کا بتایا جا رہا ہے۔


2۔ پاکستان کو ضائع شدہ کمپیوٹرز کے لیے ڈمپنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی پھیل رہی ہے اور ایک بار استعمال کیے ہوئے کمپیوٹرز کو دوبارہ استعمال کرنے سے مزید آلودگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔


جواب۔ ترقی یافتہ ممالک میں عموماً امیر اور متوسط طبقے کے لوگ ہر دوسرے یا تیسرے سال اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نیا اور زیادہ طاقت ور کمپیوٹر خریدتے ہیں۔ ان کے لیے جگہ بنانے کے لیے پرانے کمپیوٹرز کو "جائیداد سے عاق" کر دیا جاتا ہے حالانکہ ان میں سے بیشتر پوری طرح قابلِ استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو کمپیوٹر کسی خرابی کی وجہ سے قابلِ استعمال نہیں رہتے، ان کو بازیافتگی کے لیے بھیج دیا جاتا ہے جہاں پارے جیسے خطرناک مرکبات پر مشتمل اشیاء کے لیے الگ سے بازیافتگی کا انتظام کیا ہوا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اگر چیک کیا جائے تو وہاں کے قانون میں بھی مضرِ صحت اشیاء کی تیاری، فروخت اور برآمدات پر پابندیاں ملیں گی۔ اگر کمپیوٹرز کے حوالے سے ایسی پابندیاں نہ ہوں تو بھی فروخت تو صرف وہی کمپیوٹر ہوں گے جو ابھی تک اچھی حالت میں ہوں کیونکہ وہی چیز بکے گی جس کا کوئی گاہک ملے گا۔ جس چیز کا (اس کی خراب حالت کی وجہ سے) کوئی گاہک ہی نہ ہو، اسے بیچا کس کو جائے گا کہ وہ یہاں تک پہنچ بھی پائے؟
ان قابلِ استعمال کمپیوٹروں میں سے کچھ تو وہیں کے غریب شہری خرید لیتے ہیں۔۔۔
Image: Computing Outdoors


جبکہ بیشتر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں آ جاتے ہیں جہاں کے لوگ نئے کمپیوٹر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ کمپیوٹر نہ صرف یہاں پر کافی عرصہ تک چلتے ہیں بلکہ (غربت کی وجہ سے) ایک شخص کے استعمال کے بعد دوسرے کے استعمال میں آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جل جائیں یا کسی اور وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو جائیں۔ اور جب ان کی عمر ختم ہو جاتی ہے تو حکومت کی جانب سے ان کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست ہی نہیں ہے ورنہ نوے فیصد حصہ تو آرام سے بازیافت ہو سکتا ہے۔
بلکہ بازیافتگی کے کارخانے تو لازمی ہیں چاہے ہم نئے کمپیوٹر استعمال کرتے ہوں یا پرانے کیونکہ بنیادی طور پر تو سب کی ساخت ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کیا نئے کمپیوٹر کسی دور میں خراب نہیں ہوں گے؟ کیا انہوں نے آبِ حیات پی رکھا ہے؟ جب ایسا ہوگا تو اس کے لیے ہم نے کتنی تیاری کر رکھی ہے؟


یہ عجیب منطق ہے کہ کمپیوٹر ایک بار استعمال ہو جائے تو مضرِ صحت ہو جاتا ہے۔ کمپیوٹر ہے کہ ٹائلٹ پیپر؟ یا اسے خود ہی پتا چل جاتا ہے کہ اب میں ایک بار استعمال ہو چکا ہوں چنانچہ زہریلا ہو جاتا ہے؟
ہاں کچھ کمپیوٹر ایسے آ جاتے ہیں جو واقعی بہت زیادہ بگڑی ہوئی حالت میں ہوتے ہیں اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے میں ان کمپیوٹروں کو فلٹر کرنا چاہیے نہ کہ تمام استعمال شدہ کمپیوٹروں پر ہی پابندی لگا دی جائے۔


مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ماحولیاتی آلودگی پرانے کمپیوٹروں سے نہیں بلکہ کچرا بازیافت کرنے کے کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔ ہمیں پرانے کمپیوٹروں پر پابندی کی نہیں، بازیافتگی کے کارخانوں کی ضرورت ہے۔ صرف کمپیوٹروں کے لیے ہی نہیں بلکہ ان تمام برقی آلات کے لیے جو کہ گھروں میں عام استعمال ہوتے ہیں اور کمپیوٹر کی نسبت کہیں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ چاہے نئے ہوں یا پرانے۔


یہاں پر ایک مثال دینا چاہوں گا۔ پولیتھین کے لفافے اگر یوں ہی پھینک دیے جائیں تو ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک بار استعمال ہو جانے والے پولیتھین کے تھیلوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں کیا ہوگا؟ لفافوں کی بازیافتگی کے کارخانے تو ہیں ہی نہیں (اگر ہیں تو ضرورت سے انتہائی کم) چنانچہ ایک بار استعمال ہو جانے والے لفافوں کو لوگ یوں ہی پھینک دینے پر مجبور ہو جائیں گے جبکہ دوسری طرف ضرورت تو برقرار رہے گی ہی کیونکہ کاغذ اور کپڑے کے تھیلے ہر صورت میں استعمال نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ ایک بار استعمال ہو جانے والے لفافوں کا کچرا الگ اور ساتھ ساتھ ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نئے لفافے بنانے کا عمل بھی جاری رہے گا جس کی وجہ سے تھیلوں کی تعداد مزید بڑھے گی جنہیں ٹھکانے لگانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ کیا یہ ماحول کے لیے اچھا ہوگا؟ یا یہ اچھا ہوگا کہ بازیافتگی کے کارخانوں کی تعداد بڑھائی جائے؟ یہ معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ضرورت بازیافتگی کے کارخانوں کی ہے جبکہ پابندی پرانے کمپیوٹروں پر لگائی جا رہی ہے۔


3۔ پاکستان کا امیج خراب ہوتا ہے کہ "پاکستان کچرا خرید رہا ہے"۔


جواب۔ جیسا کہ میں پہلے ہی واضح کر چکا ہوں، استعمال شدہ اشیاء کو دوبارہ استعمال میں لانا کوئی برائی نہیں بلکہ ماحول کے لیے فائدہ مند ہے۔ تو ایسے میں اگر لوگ باتیں کرتے ہیں (حالانکہ حقیقت میں کسی کو پروا نہیں کہ پاکستان کیا خریدتا ہے) تو ہمیں کوئی پروا نہیں ہونی چاہیے۔


4۔ پرانے کمپیوٹر بجلی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔


جواب۔ آج کل مارکیٹ میں دستیاب نئے کمپیوٹروں کا پرانے کمپیوٹروں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو میرے خیال میں نئے کمپیوٹروں میں بجلی کی بچت کی اوسط شرح 10 سے 20 فیصد کے درمیان ہی ہوگی۔ ایسے میں اگر پرانے کمپیوٹروں پر پابندی لگائی جاتی ہے تو بجلی کی صورتِ حال پر کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ کمپیوٹرز کی نسبت کہیں زیادہ بجلی دوسرے آلات میں خرچ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہ فرق اتنا کم ہو جاتا ہے کہ اسے بحفاظت نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی اتنی بڑی چیز نہیں ہے جس کے لیے ہم پوری قوم کو تعلیم سے ہی محروم کر دیں اور انہیں مزید جہالت اور نتیجتاً مزید غربت کی طرف دھکیل دیں۔
ویسے آپس کی بات ہے، بجلی کی بچت اور ماحول کے تحفظ کے لیے بھی عوام میں وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ تعلیم کی عدم موجودگی میں ناممکن ہے۔


5۔ استعمال شدہ کمپیوٹرز کی کھپت بڑھنے کی وجہ سے مقامی طور پر اسمبل ہونے والے کمپیوٹرز کی صنعت اور مارکیٹ بہت متاثر ہو رہی ہے۔


جواب۔ اس تمام فساد کی اصل جڑ تو یہی ہے۔ ڈالر کی پجاری امریکی کمپیوٹر ساز کمپنیوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ ہمارے ملک سے انہیں اربوں ڈالر کی آمدنی کیوں نہیں ہو رہی۔ لالچ کی کوئی حد بھی ہوتی ہے کہ نہیں؟
ہاں پرانے کمپیوٹرز کے کاروبار کی وجہ سے پاکستان میں مقامی کمپیوٹر اسمبلنگ کی صنعت تھوڑی کم منافع بخش ہو گئی ہے لیکن اگر ترقی کرنی ہے تو بڑے فوائد کے لیے چھوٹے منافع کی قربانی دینی ہوگی۔ کمپیوٹر آج کے دور میں تعلیم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم عام ہوگی تو خوشحالی آئے گی اور تب پھر لوگ نئے کمپیوٹر خریدنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔
پرانے کمپیوٹرز پر پابندی کے نتیجے میں اسمبلنگ والوں کے منافع میں تو کوئی خاص اضافہ نہیں ہوگا (کیونکہ بیشتر لوگ فاقوں سے مرنے کے بجائے کمپیوٹر نہ خریدنے کو ترجیح دیں گے)، البتہ اس کے نتیجے میں تعلیم جو غریب کی پہنچ سے مزید دور ہوگی، اس سے صرف غریب طبقہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ طویل المیعاد طور پر مقامی اسمبلر بھی متاثر ہوں گے۔ کیونکہ تعلیم کی کمی سے غربت کی شرح مزید بڑھے گی اور نئے کمپیوٹر خریدنا مزید لوگوں کے بس سے باہر ہوتا جائے گا۔ تو یہ اسمبلر مجھے یہ بتائیں کہ جب ہوتے ہوتے ہر کوئی غریب ہو جائے گا اور کوئی بھی ان کے کمپیوٹر نہیں خرید پائے گا، تب یہ لوگ کیا کریں گے؟
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ یہ لوگ اپنی صنعت کے مستحکم ہونے کے لیے تھوڑا سا انتظار کر لیں۔ اور اگر حکومت کو ان سے واقعی اتنی ہمدردی ہے تو پہلے غربت کو دور کرنے کا کوئی انتظام کرے تاکہ ان کی مصنوعات لوگوں کی پہنچ میں آئیں۔ ورنہ کمپیوٹر ساز کمپنیوں کو اپنے پرزہ جات کی تیاری کے کارخانے یہیں لگانے پر مجبور کرے تاکہ نئے کمپیوٹرز کی قیمت میں کمی آئے۔ اس طرح وہ ایندھن بھی بچے گا جو ان پرزہ جات کو یہاں تک پہنچانے میں خرچ ہوتا ہے یعنی ماحول کو بھی کچھ فائدہ ہو جائے گا۔


اب ایسی پابندی لگنے کی صورت میں ملک کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لیتے ہیں۔


1۔ تعلیم لوگوں کی پہنچ سے مزید دور ہوگی۔


ایسی پابندی کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان طالبِ علم کا ہوگا جس پر قوم کے مستقبل کا دار و مدار ہے۔ تعلیم کی مجموعی حالت تو پہلے ہی خراب ہے، یہ فیصلہ ہمیں تعلیم کے معاملے میں مزید پستیوں کی طرف دھکیل دے گا۔ پاکستانی طلبائے علم میں سے زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کاغذ پر چھپنے والی کتابیں تو آج کل اتنی مہنگی ہیں کہ مجھ جیسا کوئی طالبِ علم پورے سال میں تین چار بڑی کتابیں بھی نہ خرید پائے حالانکہ میں تو غریب کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔ ایسے میں کمپیوٹر ہمارے لیے علم کے ذخائر تک رسائی کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک کھٹارے کمپیوٹر اور ایک کچھوے جیسے رینگتے انٹرنیٹ کنکشن کی بدولت طلبائے علم کی ایک بڑی تعداد سال بھر میں درجنوں کتابیں پڑھ لیتی ہے۔


حصولِ عبرت کے لیے ایک نظر میرے کھٹارے کو دیکھیے گا۔
Image: My Dear Khatara PC


یہ ہمارے گھر میں چار سال پہلے آیا تھا اور سائنسی علوم میں میں نے اپنی پوری زندگی میں جو کچھ بھی سیکھا ہے، اس کا سب سے زیادہ حصہ میں نے انہی چار سالوں کے دوران سیکھا ہے۔


اگر یہ ذریعہ بھی ہم طلبائے علم سے چھن گیا تو قوم کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ بازار میں ایک اچھا سا استعمال شدہ کمپیوٹر 6 ہزار سے 8 ہزار میں مل جاتا ہے جبکہ بالکل نیا 25 ہزار سے 45 ہزار کا ملتا ہے۔ غریب کو چھوڑیں، کیا ایک متوسط طبقے کا طالبِ علم بھی اتنا مہنگا سامان خرید سکتا ہے؟ ایسے میں تو صرف ایک ہی نتیجہ آئے گا کہ تعلیم لوگوں کی پہنچ سے مزید دور ہوتی جائے گی اور جہالت و غربت مزید بڑھتی جائے گی۔


ساتھ ساتھ چونکہ سکولوں میں بھی کمپیوٹر کی تعلیم رواج پاتی جا رہی ہے، چنانچہ انہیں کمپیوٹر کا خرچ پورا کرنے کے لیے اپنی فیسیں بڑھانی پڑیں گی۔ یعنی طالبِ علم کی دونوں طرف سے خوب دھلائی ہوگی۔


2۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت تباہ ہو جائے گی۔


اس فیصلے کے نتیجے میں چونکہ کمپیوٹر لوگوں کی پہنچ سے مزید دور ہو جائیں گے، اس لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت میں جو پاکستان میں ترقی ہوئی ہے، وہ بھی الٹے قدموں واپس صفر پر پہنچ جائے گی۔


3۔ حکومت کا خرچہ بڑھے گا۔


آج کل تمام دفاتر میں کمپیوٹر ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے جن میں سرکاری دفاتر بھی شامل ہیں۔ پرانے کمپیوٹروں پر پابندی کی صورت میں حکومت کو سرکاری دفاتر میں کمپیوٹروں کے انتظام کے لیے موجودہ مقدار سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ سرکاری سکولوں میں تو کمپیوٹر کا انتظام کیا ہی نہیں جاتا۔ لیکن اگر سکولوں پر ایمانداری سے کام کرنا پڑ گیا تو لگ پتہ جائے گا۔


4۔ لاکھوں افراد کی بے روزگاری۔


اور جیسا کہ پہلے بھی کئی بار آپ ذکر سن چکے ہوں گے، اس سے استعمال شدہ کمپیوٹرز کی تجارت سے وابستہ لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔


5۔ اسمگلنگ کا رجحان بڑھے گا۔


اس پابندی سے اسمگلنگ کا رجحان بڑھے گا کیونکہ جب لوگوں کو اپنی جائز ضروریات جائز طریقے سے پوری نہیں کرنے دی جائیں گی تو وہ ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس سے پاکستان کے خزانے کو شدید نقصان پہنچے گا۔


تو اس طویل مضمون سے کیا نتیجہ حاصل ہوا؟


میرے خیال میں تو اس سے یہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اس پابندی کے نفاذ کے لیے جو دلائل پیش کیے جا رہے ہیں، وہ سب انتہائی کمزور ہیں۔ بلکہ ماحول کی حفاظت کی بات کرنے والی کمپنیاں خود اس قدم کے ذریعے ماحول کو مزید نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اور پاکستان کو پہنچنے والا شدید نقصان تو اس کے علاوہ ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ بازیافتگی کے کارخانوں کی عدم دستیابی ہے جن کی ضرورت ہر حال میں ہوگی چاہے ہم پرانے کمپیوٹر استعمال کریں یا نئے۔


کچھ تجاویز:


1۔ میرے نزدیک اس سلسلے میں سب سے اہم کام تو یہ ہے کہ کچرا بازیافت کرنے کے کارخانے لگائے جائیں جہاں صرف کمپیوٹر ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے کچرے کو بازیافت کیا جائے۔ یہ ماحول کے لیے تو مفید ہوں گے ہی۔ ساتھ ساتھ مختلف دھاتوں اور پولیمرز وغیرہ کی درآمد پر خرچ ہونے والی رقم میں کافی بچت کا ذریعہ بھی بنیں گے۔ اور کچھ لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا۔


2۔ نئے اور پرانے دونوں اقسام کے کمپیوٹرز میں چھانٹی کا انتظام کیا جائے اور جو آلات ماحول کے لیے بہت نقصان دہ ہوں، انہیں روک لیا جائے اور باقیوں کو آنے دیا جائے۔ مثلاً 14 یا 15 انچ سے بڑے کیتھوڈ رے ٹیوب مانیٹر کی عموماً ضرورت بھی نہیں ہوتی اور یہ بجلی بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ان پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔


3۔ کمپیوٹر ساز کمپنیوں کے یہاں صرف اسمبلنگ کے کارخانے ہیں جہاں صرف درآمد شدہ پرزہ جات کو جوڑ کر کمپیوٹر بنا دیا جاتا ہے۔ ان کے پرزہ جات کی یہاں مقامی طور پر تیاری کا انتظام کروایا جائے جیسے ہندوستان میں انٹیل کے کمپیوٹر مقامی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ اس سے قیمتیں کم ہوں گی اور نئے کمپیوٹر لوگوں کی پہنچ میں آئیں گے۔ مقامی کارخانوں کی ماحول دوستی پر نظر رکھنا بھی زیادہ آسان ہوگا۔


آخر میں حکمرانوں کے توجہ ان احادیث کی طرف دلانا چاہوں گا۔


حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“جس بندے کو بھی اللہ تعالیٰ عام لوگوں کا محافظ/حاکم بنائے اور وہ ان کی خیر خواہی نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔" (صحیح البخاری، کتاب الاحکام، حدیث 7150)
نیز ارشاد فرمایا:
“جو حاکم بھی عام مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار بنے، اور اس حالت میں مرے کہ وہ ان کی حق تلفی کر رہا ہو، تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔" (ایضا، حدیث 7151)

11 تبصرے:

  1. میں آپ کے خیلات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ ، ابھی تک پابندی نہیں لگی ۔ جہاں تک میری معلومات ہیں پابندی لگے گی بھی نہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. او یار
    کتنا ٹیم لگایا یہ پوسٹ لکھنے میں
    قسطوں میں لکھ دیتے
    میں نے تو سروع میں سے دو تین سکریں سکرول کر کے پڑھیں فیر بس ہو گئی
    وہاں ت تو میں آپ کے دلائل سے پوری طرح متفق ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  4. اگر ان استعمال شدہ کمیپیوٹروں پر پابندی لگ گئی تو یہ واقعی ظلم ہو گا۔ چار پانچ سال پہلے میں نے ۲۵۰۰۰ کا کمپیوٹر خریدا تھا اب اس سے دگنی طاقت کے یہی استعمال شدہ کمپیوٹر اس سے آدھی سے بھی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ ان کی بدولت متوسط طبقہ بھی با آسانی ایک اچھا کمپیوٹر خرید کر اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔ ایک طرف حکومت آئی ٹی ایجوکیشن کو عام کرنے کا نعرہ لگاتی ہے دوسری طرف کمپیوٹروں کو غریب عوام کی پہنچ سے دور کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ عجب پالیسیاں ہیں ان لوگوں کی بھی!

    جواب دیںحذف کریں
  5. bahie buhat mehnat ki ha app ko wakie haq punchta ha tazaibi honay ka

    جواب دیںحذف کریں
  6. ابو بکر: اللہ کرے کہ حکومت بھی متفق ہو جائے۔
    انکل ٹام: اللہ کرے ایسا ہی ہو اور پابندی نہ لگے۔
    ڈفر: بلاگ کے لیے مضمون تیار کرنے میں دو دن لگے ہیں جبکہ اردو محفل پر ہونے والی بحث کو ملا کر دیکھیں تو 6 دن ہو جاتے ہیں۔ اس مضمون کا ایک بڑا حصہ انہی جوابات پر مشتمل ہے جو میں نے اردو محفل والے تھریڈ پر لکھے تھے۔
    سعد: عجیب پالیسیاں، عجیب حکمران، اور عجیب ملک کے عجیب عوام۔ :-/
    عبد القدوس: شکریہ۔ :)

    جواب دیںحذف کریں
  7. لاہور ہال روڈ پر 1000 دکانیں ہیں اور اسی طرح حفیظ سینٹر میں بھی تقریباً 1000 دکانیں ہی ہیں ۔۔۔ اگر ہر دکان میں تقریباً 2 آدمی بھی کام کرتے ہوں تو ۔۔۔ 4 ہزار خاندانوں کی روزی روٹی کا زریعہ پھر اسی طرح اگر ہر دکان کے 10 گاہک ہوں تو آپ حساب لگا لیں کہ 20 ہزار لوگوں کا کام خراب ہو گا ۔ یہ تو صرف ایک اندازہ ہے اسکے علاوہ کراچی لاہور سے بڑا شہر ہے ۔۔۔ آپ خود حساب لگا سکتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا

    جواب دیںحذف کریں
  8. بہت زبردست تحریر ہے۔ میں استعمال شدہ کمپیوٹرز کی درآمد پر مجوزہ پابندی کو تعلیم کا قتل عام سمجھوں گا۔ حکومت کا اس سے زیادہ خراب فیصلہ شاید ہی کوئی ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. بہت اچھی اور معلوماتی تحریر لکھی ہے۔ میں نے یہ بینرز لگے ہوئے دیکھے تھے لیکن ان کا پس منظر نہیں پتا تھا۔ اس تحریر نے پس منظر کو پیش منظر کردیا :)

    جواب دیںحذف کریں
  10. [...] This post was mentioned on Twitter by Muhammad Saad. Muhammad Saad said: حکومت "کمپیوٹر شیڈنگ" کی تیاری میں۔ http://philosophoricacid.wordpress.pk/archives/37 [...]

    جواب دیںحذف کریں
  11. سنا ہے کہ اب پابندی تو نہیں لگ رہی لیکن درآمد ہونے والے پرانے کمپیوٹروں پر 16 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ شاید یہی اس سارے ڈرامے کا مقصد تھا تاکہ لوگ اسی کو غنیمت جان کر خاموش ہو جائیں۔

    جواب دیںحذف کریں