پیر، 12 اپریل، 2010

ناقابلِ یقین کہانی

ناقابلِ یقین کہانی۔ مصنف: امر جلیل


کچھ روز پہلے کسی نے پوچھا ”اگر بینظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو آصف زرداری آج کہاں ہوتے؟“
”یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے“ میں نے کہا۔
”بے نظیر بھٹو جب زندہ تھیں آصف زرداری چلنے پھرنے اور آنے جانے کے قابل نہیں تھے“۔
”کیوں؟“ اس نے پوچھا ”ان کے پیروں میں کیا مہندی لگی تھی؟“
مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا ”وہ سخت بیمار تھے۔ ان کی کمر اور ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف تھی ۔ وہ چل پھر نہیں سکتے تھے۔ دبئی اور نیویارک میں ان کا علاج چل رہا تھا“۔
شرارتی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے اس نے کہا ”اور بینظیر کے فوت ہوتے ہی زرداری صاحب ٹھیک ہوگئے“!
”دیکھو“ میں نے اس سے کہا ”تم ایک ایسے شخص کے بارے میں اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو جن کو ہر طرح کا آئینی تحفظ ملا ہوا ہے“۔
”ناراض کیوں ہوتے ہو بھائی۔“ اس نے کہا ”میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ بینظیر صاحبہ اگر آج زندہ ہوتیں تو پھر آصف زرداری صاحب کا پاکستان کی سیاست میں کوئی عمل دخل ہوتا؟؟“
میں آصف زرداری کا جانثار چکرا کر گر پڑا، بیہوش ہوگیا۔ ہوش میں آیا تو ایک اسپتال میں تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ ایک نرس مسکرا کر میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے نرس سے پوچھا ”اگر بینظیر صاحبہ آج زندہ ہوتیں تو پھر زرداری صاحب کہاں ہوتے؟؟“
نرس نے سوال سنا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہو گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ چکرا کر گر پڑی اور بیہوش ہوگئی۔ نرس دھم سے گری تھی۔ اس کے گرنے کی آواز سن کر دو تین ڈاکٹر اور کچھ وارڈ بوائے دوڑتے ہوئے آئے۔ نرس کو فرش پر بیہوش پڑا ہوا دیکھ کر حیران ہوئے۔ ایک ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا۔ ”سسٹر سلونی کو کیا ہوا، کیسے گر پڑیں؟“
”میں نے ان سے ایک سوال پوچھا تھا“ میں نے کہا ”سوال سنتے ہی وہ چکرا کر گر پڑی اور بیہوش ہو گئی“۔
ڈاکٹر نے کہا ” تم نے سسٹر سلونی سے کیا پوچھا تھا؟“
میں نے کہا ”سسٹر سلونی سے میں نے پوچھا تھا ، بینظیر صاحبہ اگر آج زندہ ہوتیں تو زرداری صاحب کہاں ہوتے؟“
ڈاکٹروں اور وارڈ بوائز کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھتے رہے میں نے حیرت زدہ ڈاکٹروں اور وارڈ بوائز سے پوچھا ”اچھا آپ لوگ بتا سکتے ہیں کہ بینظیر صاحبہ اگر آج زندہ ہوتیں تو آصف علی صاحب کہاں ہوتے اور کیا کر رہے ہوتے“؟
ڈاکٹر اور وارڈ بوائے چکرا گئے میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ چکرا کر گر پڑے اور بیہوش ہو گئے اور اس کے بعد میں نے جس جس خدا کے بندے سے پوچھا کہ محترمہ بینظیر صاحبہ اگر زندہ ہوتیں تو آصف زرداری سیاست میں دکھائی دیتے؟ وہ تمام کے تمام خدا کے نیک بندے سوال سن کرگر پڑے اور بیہوش ہو گئے۔
اس ماجرے سے گھبرا کر میں نے پیروں فقیروں کا رخ کیا۔ میرا سوال سن کر پیر فقیر چکرا کر گر پڑے اور بیہوش ہوگئے، صورت حال تشویش ناک ہوتی جا رہی تھی سنا تھا کہ جوگی، سنیاسی اور بھکشو گھنے برگدوں کے سایے میں چلہ کاٹتے تھے اس لحاظ سے برگد معتبر درخت ہے میں نے ایک گھنے اور تناور درخت سے پوچھا ”بینظیر صاحبہ اگر زندہ ہوتیں تو کیا زرداری صاحب پاکستانی سیاست میں نظر آتے یا اپنی درد میں مبتلا کمر اور ریڑھ کی ہڈی کا بیرون ملک علاج کرا رہے ہوتے؟“
میں نے سنسناہٹ کی آواز سنی برگد لرزنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے برگد پرخزاں چھانے لگی پتے پیلے ہو کر ٹہینوں سے گرنے لگے۔ آناً فاناً ہرا بھرا برگد سوکھ گیا۔
میں پریشانی کے عالم میں کھڑا ہوا تھا کہ مجھے غیب سے آواز سنائی دی۔ ”گڑھی خدا بخش جاؤ اور یہ سوال جا کر ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھو“۔
میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ ”سوچتے کیا ہو بونگے بھائی، جاؤ۔ گڑھی خدا بخش جاؤ اور یہ سوال جا کر ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھو۔ وہ آصف علی زرداری کے سسر لگتے ہیں وہی اس سوال کا جواب تمہیں دیں گے“۔
دیگر پاکستانیوں کی طرح میں پیروں مرشدوں کا مارا ہوا رخت سفر باندھ کر اسی سمت نکل پڑا جو میرے لئے انجانی تھی۔ میں نے زندگی میں نہ تو لاڑکانہ دیکھا تھا اور نہ رتو ڈیرو دیکھا تھا۔ سنا تھا وہیں سے ایک راستہ نکلتا تھا جو کہ سیدھے گڑھی خدا بخش پہنچتا تھا۔ میں نے پیر و مرشد کے بعد اللہ کا نام لیا اور سفر پر نکل پڑا۔ جب تک ذوالفقار علی بھٹو کا جسد خاکی وہاں دفن نہیں ہوا تھا کسی نے بھی گڑھی خدا بخش کا نام نہیں سنا تھا۔ اب تو وہاں ذوالفقار علی بھٹو کے بغل میں ان کی جواں سال بیٹی اور دو جواں سال بیٹے ابدی نیند سو رہے ہیں۔ پچھلے تیس بتیس برسوں میں ہم پیر و مرشد اور قبر پرستی کے مارے ہوئے پاکستانیوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پیر سائیں بنا کر رکھ دیا ہے۔ بیمار ان سے شفا مانگتے ہیں، بیروزگار ان سے روزگار مانگتے ہیں۔ بے اولاد ان سے اولاد مانگتے ہیں۔ معطل افسر ان سے بحالی کی دعا مانگتے ہیں۔ مظلوم بہو ان سے ساس کے بدن میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگتی ہے۔ طالب علم امتحان میں پاس ہونے کے لئے ان کی قبر پر آکر گڑ گڑاتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ شاید ہی کوئی شخص ہو جو گڑھی خدا بخش کے بارے میں کچھ نہ جانتا ہو۔
لاڑکانہ سے رتو ڈیرو پہنچنے میں مجھے زیادہ دقت پیش نہیں آئی لیکن گڑھی خدا بخش تک پہنچنا مجھے ناممکن محسوس ہوا چپے چپے پر رینجرز کے کمانڈوز اور پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ مجھے تعجب ہوا گڑھی خدا بخش جانے والی سڑک پر لوگوں کا جم غفیر موجود تھا۔ ان میں بچے تھے، جوان تھے، بوڑھے تھے، عورتیں تھیں، مرد تھے۔
ہاتھوں میں آٹو میٹک رائفلیں اور روالور تھامے سیکورٹی اہلکار عقاب کی طرح ایک ایک شخص پر نظر رکھے ہوئے تھے، کڑی جانچ پڑتال کے بعد وہ ایک ایک آدمی کو آگے جانے دے رہے تھے، میں نے ایک ریڑھی والے سے پوچھا ”یہاں کیا روزانہ اسی طرح بھیڑ لگی رہتی ہے؟“
”نہیں“ ریڑھی والے نے کہا ”آج شہید بابا کی برسی ہے۔ سائیں زرداری شہید بابا کی مزار پر چادر چڑھانے آرہے ہیں۔“ شہید بابا سے اس کی مراد ذوالفقار علی بھٹو تھی۔
مجھے سیکورٹی اہلکاروں سے ہوتے ہوئے آگے نکل جانا ناممکن لگ رہا تھا۔ میرے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ شناختی کارڈ ان کے پاس ہوتے ہیں جن کی کوئی شناخت ہوتی ہے میری کوئی شناخت نہیں ہے۔ میں اپنے ہی وطن میں بے وطن ہوں۔ سیکورٹی والوں سے نظر بچا کر سڑک کی دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں داخل ہوگیا۔ میں ہر حال میں گڑھی خدا بخش پہنچنا چاہتا تھا۔ میں شہید بابا سے پوچھنا چاہتا تھا کہ بینظیر صاحبہ اگر آج زندہ ہوتیں تو زرداری صاحب کہاں ہوتے اورکیا کر رہے ہوتے۔ کیا وہ پاکستان کی سیاست میں کہیں نظر آسکتے تھے؟ وہی میرے سوال کا جواب دے سکتے تھے جسے سن کر ان کے غریب عوام چکرا کر گر پڑتے ہیں اور بیہوش ہوجاتے ہیں۔
سیکورٹی اہلکاروں سے بچتا بچاتا میں آگے بڑھ رہا تھا کہ گھنی جھاڑیوں میں کسی سے ٹکرا کر گر پڑا۔ ایک شخص درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے شاہ لطیف کی طرح گھٹنوں پر سر رکھا ہوا تھا وہ مجھے شناسا شناسا محسوس ہوا۔ مجھے لگا جیسے میں جانتا ہوں۔ میں اسے پہلے بھی دیکھ چکا تھا لیکن مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ کب اور کہاں میں نے اسے دیکھا تھا۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا اور پوچھا ”کیا آپ بھی میری طرح چھپتے چھپاتے ذوالفقار علی بھٹو کی مزار پر جا رہے ہیں؟“
انہوں نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا ”نہیں۔“
”تو آپ گڑھی خدا بخش نہیں جا رہے؟؟میں نے پوچھا ۔
انہوں نے سر گھٹنوں پر رکھ دیا اور کہا ”سیکورٹی والوں نے مجھے گڑھی خدا بخش سے نکال دیا ہے“۔
میں نے تعجب سے پوچھا۔ ”مگر کیوں؟“
انہوں نے میری طرف دیکھا۔ ایک نحیف سی مسکراہٹ ان کے اداس چہرے پر پھیل گئی۔ انہوں نے کہا ”سیکورٹی حکام کو یقین ہے کہ میں زرداری کو مار ڈالوں گا“۔
مجھے تعجب ہوا۔ میں نے پوچھا ”مگر آپ ہیں کون“؟
نحیف سی مسکراہٹ سے میری طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا ”میں ذوالفقار علی بھٹو ہوں“۔

7 تبصرے:

  1. bahi itni tazabiat kaheen mera hazma na karab ho jaye...

    great yaar

    جواب دیںحذف کریں
  2. عبدالبصیر مغل21 دسمبر، 2010 کو 9:43 PM

    یہ عظیم شہید آج کل کہاں رہتے ہیں۔ مجھے بابا سائیں سے تھوڑی سی ہمدردی ہے یعنی گڑھی خدا بخش سے نکالا جانا یقیناً ظلم عظیم ہے لیکن ملک توڑنا پہلا سول مارشل لائ لگانا، محترمہ فاطمہ جناح کی مخالفت کرنا وغیرہ اور پھر مسجد شہدائ میں کئی وقت تک اذان نہ ہونے دینا، ناصر باغ کے اندر کرنٹ چھوڑ دینا یہ سب شاید چھوٹے ظلم ہیں۔جواب کا منتظر رہوں گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. @عبدالبصیر مغل:
    السلام علیکم۔
    جب سے عقل آئی ہے، میں عموماً سیاست پر بات کرنے سے دور ہی رہتا ہوں۔ اور ذولفقار علی بھٹو کی ذرا سی بھی مخالفت کرنے والوں کا اس کے پنکھوں کے ہاتھوں جو حال ہوتے میں نے دیکھا ہے، اس کے پیشِ نظر منہ بند رکھنا ہی عقل مندی معلوم ہوتا ہے۔ ویسے بھی ذولفقار علی بھٹو میرے زمانے سے کافی پہلے کی مخلوق ہے۔ اس سے میرا کیا لینا دینا۔
    مجھے تو بس امر جلیل کا یہ مزاحیہ کالم ملا تھا جس کی طرف لوگوں کی توجہ دلانے کے لیے میں نے اسے یہاں نقل کر دیا۔ اس کا مرکزی خیال بھٹو کا ظلم یا مظلومیت نہیں بلکہ یہ بات ہے کہ آصف علی زرداری اس حد تک گزر گیا ہے کہ اگر ذوالفقار بھٹو آج زندہ ہوتا تو آصف زرداری کو زندہ نہ چھوڑتا۔ تبھی اس فرضی کہانی میں سیکیورٹی والوں نے اسے گڑھی خدا بخش سے نکال دیا۔
    تھوڑی مزاح کی حس پیدا کرو یار! سڑیل پن سب سے زیادہ اپنی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. I honestly did not think this situation that way. I feel that you will find a point in this. Pleased to be able to play a part. Wish you luck.

    جواب دیںحذف کریں