اردو زبان میں سائنسی مواد پر جب بات ہو تو دو اہم نکات اکثر سامنے آتے ہیں۔ ایک طرف کسی کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ سائنسی مواد کی مقامی زبانوں میں موجودگی اسے عام فہم بنانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ دوسری جانب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس سطح پر ہم ہیں، اس حالت میں لوگوں کو اردو میں سائنس پڑھانا انہیں محدود کرنے کے برابر ہے۔ کہ جس سطح پر پہنچ کر انہیں آگے کسی اور زبان کو اختیار کرنے کی ضرورت پڑی، وہاں سے ان کی مشکلات شروع جائیں گی اور آگے بڑھنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ ان کے مطابق شروع سے دیگر زبانوں میں انہیں تربیت دینے سے وہ زیادہ بلند سطح پر موجود مواد، جو کہ صرف غیر زبان میں ہی دستیاب ہوگا، سے بہتر استفادہ کر سکیں گے۔ وزن دونوں ہی باتوں میں ہے۔ پہلا گروہ جب اپنی زبان میں تعلیم دینے والی ترقی یافتہ قوموں کی جانب اشارہ کرتا ہے تو دوسرے گروہ والے اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ وہ ممالک اس معاملے میں پہلے ہی سے کافی مستحکم بنیادیں رکھتے ہیں۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو میں سائنسی تدریس کی کوششوں کو ترک کر دیا جائے؟
میری رائے میں ایسا نہیں۔
موجودہ صورت حال بھی قابلِ قبول تو نہیں۔ اور تبدیلی لانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہاتھ پیر چلانے ہی پڑیں گے۔
لیکن جو لوگ فوری طور پر اردو میں سائنس کی تدریس رائج کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، انہیں بھی اس دلیل کو مد نظر رکھنا ہوگا جس کا ذکر اوپر گزرا۔
تو پھر حل کیا ہے؟
یہ تو عام مشاہدہ ہے کہ پائیدار نوعیت کی بڑی تبدیلی ہمیشہ آہستہ آہستہ ہی آتی ہے۔
میرے خیال میں بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ فی الحال رسمی سائنسی تدریس کو اسی طرح انگریزی میں چلنے دیا جائے لیکن ساتھ ساتھ اردو میں مواد کی دستیابی کی کوششیں بھی جاری رکھی جائیں۔ آج اگر میں کچھ بنیادی نوعیت کا مواد اردو میں دستیاب کر دیتا ہوں تو کل کو اگر کوئی اور آ کر اس پر کام کرنا چاہے گا تو آسانی سے اس کے اوپر تھوڑی اور عمارت کھڑی کر دے گا۔ اسی طرح پھر کوئی اور آ کر کچھ اور اینٹیں لگا دے گا۔ یوں ہوتے ہوتے، اگر اللہ نے چاہا تو، ایک دن ایسا آ ہی جائے گا کہ جب ہمارے پاس بنیادی سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے لیے اردو میں مواد دستیاب ہو۔ بھلے ہی وہ وقت سو سال بعد آئے لیکن اگر چل پڑیں گے تو آہستہ آہستہ ہی سہی، سفر کٹ ضرور جائے گا۔ اور پھر اگلے مرحلے میں دیگر مقامی زبانوں میں یہ سب کام کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ اور تب ہم بھی، ان شاء اللہ، اس مقام پر پہنچ جائیں گے کہ جہاں پہنچ کر ہمارے لیے اپنی زبانوں میں سائنس کی تدریس کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گی۔
لیکن ایک بات کا خیال رہے! صرف مواد ہی دستیاب کرنا کافی نہیں ہوگا۔ خود تحقیق کی عادت بھی ڈالنی ہوگی۔ اس تبدیلی کو دیر پا بنانے کے لیے اس سب کے ساتھ ساتھ خود انحصاریت کی طرف بھی بڑھنا ہوگا۔ دوسروں کا جھوٹا استعمال کرنے کی عادت سے جان چھڑانی ہوگی۔
یعنی کہ بیک وقت دو جہتوں میں بڑھنا ہوگا۔ مواد کی دستیابی بھی اور تحقیق بھی۔
اس کے متوازی فی الوقت تو اپنا تدریسی نظام انگریزی میں چلانا پڑے گا۔ لیکن مجھے قوی امید ہے کہ یہ سفر قدم بہ قدم آگے بڑھتا رہا تو ایک دن ہم اس قابل ضرور ہو جائیں گے کہ انگریزی کی انحصاریت سے بہ آسانی جان چھڑا سکیں۔