اتوار، 29 مارچ، 2015

کلیدساز ۲ تجرباتی نسخہ

چند سال پہلے خاکسار نے لینکس کے لیے کی بورڈ لے آؤٹ فائل بنانے کا ایک جی یو آئی تیار کیا تھا جو کہ پاک لینکس کے نسخہ اول ساتھ کلیدساز کے نام سے جاری کیا گیا تھا۔ ابتدائی نسخہ فائل تو بنا دیتا تھا لیکن پھر اس کو انسٹال کرنا صارف کی ذمہ داری بن جاتا جسے پھر خود انسٹالیشن کا طریقہ ڈھونڈنا پڑتا۔ چنانچہ خاکسار کافی عرصے سے تھوڑا تھوڑا کر کے اس میں کی بورڈ لے آؤٹ کی تنصیب کو بھی خودکار بنانے پر کام کر رہا تھا، جس کا ڈھانچہ اب مکمل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ حتمی نسخہ پاک لینکس کے نئے نسخے کے ساتھ جاری کیا جائے گا لیکن اس سے پہلے اس کے کام کو پرکھنے کے لیے کئی تجربات کی ضرورت ہو گی۔ چنانچہ مجھے "بیٹا ٹیسٹرز" کی ضرورت ہے۔ یا جیسے جٹسی کے ڈاؤن لوڈ صفحے پر موبائل نسخے کے ساتھ لکھا ہے، "نڈر الفا جنگجووں" کی۔
جو افراد کچھ تکنیکی مہارت رکھتے ہیں، ان کے تعاون کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
جو افراد صرف استعمال کی حد تک محدود رہنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بہتر ہو گا کہ کسی حادثاتی نقصان سے بچنے کے لیے حتمی نسخے کا انتظار کریں جو پاک لینکس کے ساتھ جاری کیا جائے گا۔
موجودہ تجرباتی نسخہ کلیدساز کی گٹ ہب ریپازیٹری سے حاصل کریں۔

منگل، 6 جنوری، 2015

اعتزاز حسن کی یاد میں


کچھ زیادہ نہیں، بس ایک سال پہلے کی بات ہے۔ ضلع ہنگو میں 6 جنوری 2014ء کی صبح تھی۔ جب اعتزاز حسن نامی ایک بہادر لڑکے نے اپنے سکول کی طرف بڑھتے ہوئے ایک خودکش حملہ آور کو روکا تھا۔ کئیوں کی جان بچائی اور اپنی جان قربان کر دی۔ اس کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ حملہ آور کسی اور کو نقصان پہنچا دے۔
جان قربان کر دینا۔۔۔ کہنے میں کتنا آسان لگتا ہے۔ لیکن حقیقت میں انتہائی بھاری۔ اس کیفیت کو صحیح معنوں میں وہی سمجھ سکتا ہے جو اس لمحے کے اندر یہ فیصلہ کرتا ہے۔ کہ کوئی مقصد اتنا بڑا ہے جس کی اہمیت اس کی جان سے بھی زیادہ ہے۔
اور مقصد بھی کیا خوب! کسی اور کی زندگی کی حفاظت۔ کہ اسے ایک اور موقع مل جائے جینے کا۔ بچنے والے کے لیے تو یہ ساری کائنات جتنا فرق ہوتا ہے۔ یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
اس دنیا میں ہر ذی روح کو اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے۔ یہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے۔ ایک بار چلی جائے تو یہ نعمت دوبارہ نہیں ملتی۔ ایسی نایاب نعمت کو قربان کر دینا کوئی ایسا فیصلہ نہیں جو ہر کوئی کر سکے۔
 تبھی ایسے شخص کو ہیرو کہتے ہیں۔ اور اس کی سب عزت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ کچھ ایسا کر چکا ہوتا ہے جو عام لوگ نہیں کر سکتے۔ کچھ ایسا جو اسے انسانیت کے اعلیٰ درجوں پر لے جاتا ہے۔
پھر بے شک اس عمل میں اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے، اس فانی دنیا میں اس کا وجود ختم ہو جائے۔ لیکن اس کی قربانی ہی کئی لوگوں کی زندگی کا، ان کے باقی رہ جانے کا سبب بنتی ہے۔ اور اس کے لیے وہ انتہائی عزت و تکریم کا حق دار ہے۔

بدھ، 1 اکتوبر، 2014

آپریشن واجب البلاگ

با وثوق ذرائع سے علم ہوا ہے کہ کچھ بلاگر احباب چھوٹی موٹی مراعات کے بدلے فیسبک کے ہاتھ بک گئے ہیں۔ یہ غدار بلاگران اب طویل و عریض تحاریر لکھ کر اپنے بلاگ پر شائع کرنے کے بجائے بلاگ کا حق مارتے ہوئے فیسبک کے اندھے کنویں میں پھینک دیتے ہیں۔ جس کے سبب اب ان کے بلاگز کچھ ایسے نظر آنے لگے ہیں۔
یاسر خوامخواہ جاپانی کا بلاگ
محمد سلیم صاحب کا بلاگ
میں "غیر فیسبکی بلاگرز سوسائٹی" کے پلیٹ فارم سے اس غدارانہ طرزِ عمل کی شدید مذمت کرتا ہوں اور غداری کرنے والے بلاگروں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اپنی یہ عادت سدھار کر اپنی تحاریر اپنے بلاگوں پر لگانا شروع کر دیں۔
بصورت دیگر ہماری طرف سے اعلانِ جنگ سمجھا جائے۔ اگر آپ اپنی تحریر اپنے بلاگ پر نہیں لگانا چاہتے تو ایسے کئی "رضاکار" دستیاب ہیں جو آپ کی تحاریر بخوشی اپنے بلاگوں پر شائع کر دیں گے۔
میں فیسبک استعمال کرنے والے اپنے بلاگر احباب سے بھی پرزور اپیل کرتا ہوں کہ اس "مقدس مشن" میں ہمارا ساتھ دیں۔ آپ ہمارا ساتھ ایسی تمام پوسٹس پر احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے بھی دے سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو ایک قدم آگے بڑھ کر ان تحاریر کو ہائی جیک کرتے ہوئے اپنے بلاگوں پر بھی لگا سکتے ہیں (اصل لکھاری کے حوالے کے ساتھ)۔
اعلان ختم ہوا۔

جمعرات، 4 ستمبر، 2014

آؤ مل کر قدرت کے راز کھوجیں!

کیا آپ نے کبھی آرٹسٹوں کو دیکھا ہے؟ ایسی ایسی چیزوں میں خوبصورتی ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ کسی بھی آرٹسٹ کے ساتھ کچھ وقت گزارنے پر آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ لوگ اس حسن کو صرف خود ہی محسوس کر کے مطمئن نہیں رہ پاتے بلکہ وہ اسے سب کے ساتھ بانٹنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہی کاوش فن پاروں کی تشکیل کا باعث بنتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ  آج ہمارے پاس وان گوف کی تصاویر سے لے کر جوہان باخ کی دھنیں تک موجود ہیں۔
 ایک سائنس دان بھی کسی  آرٹسٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ اس کو بھی قدرت کے مظاہر میں، اس کے رازوں میں، جمال و رعنائی نظر آتی ہے۔ ان رازوں کو کھوجنا اس کے لیے ایک دلچسپ کھیل ہوتا ہے،کیونکہ  رازوں کے اس پار مزید رعنائیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں۔ پھر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر وہ ان رعنائیوں کو سب کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہے۔ اس طرح کتابیں اور تحقیقی مقالے وجود میں آتے ہیں۔ پھر وہ مزید ایسے لوگوں کی تلاش کرتا ہے جو اس منفرد خوبصورتی کی طرف، اسی کی طرح مائل ہوتے ہوں۔ چنانچہ سائنسی انجمنیں اور فورمز وجود میں آتے ہیں۔ 
تجسس سائنس فورم بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک اجتماع گاہ ہے جو قدرت کی خوبصورتی کی قدر کرتے ہیں اور اس کے رازوں کو کھوجنے میں لطف اٹھاتے ہیں۔ 
یوں تو ایسی اجتماع گاہیں اور بھی کئی موجود ہیں لیکن وہاں زبان کی رکاوٹ آڑے آ جایا کرتی ہے۔ جس طرح غالب کی شاعری ہم میں سے اکثر کو انگریزی میں لطف نہیں دے پاتی، اسی طرح سائنس کا ایک اجنبی زبان میں مطالعہ بھی ہمارے لیے قدرت کے حسن کو حقیقتاً قریب سے سمجھنے میں حائل ہو جاتا ہے۔ جب آپ کسی چیز کی خوبصورتی کو ہی نہ سمجھ پائیں تو اس کی جستجو میں ستاروں سے آگے نکلنے کی خواہش کیسے پیدا کر پائیں گے، بے شک اس میں آپ کو معاشی فائدہ یا وہ سب نظر آ رہا ہو جیسا کہ سائنس کی افادیت کے متعلق کسی روایتی مضمون میں آپ کو بتایا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمیں اردو زبان میں سائنسی گفتگو کے لیے ایک مخصوص اجتماع گاہ بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ 
تو آئیے! ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ تجسس سائنس فورم کے رکن بنیں اور قدرت کی خوبصورتی کو جاننے اور اس کے راز کھوجنے کے اس عمل میں ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ کہیے، کیا خیال ہے؟

ہفتہ، 1 مارچ، 2014

نا-مساعد

یاد نہیں کہ کتنے سال قبل کا واقعہ ہے۔ معمول کے ایک راستے سے گزرتے ہوئے وہاں دو عدد نئے کھمبے گڑے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ وہاں ایک نیا ٹرانسفارمر نصب ہونے لگا ہے۔ چونکہ ہمارے شہر میں بجلی کی ترسیل کے کمزور نظام کے باعث ٹرانسفارمر میں آتش بازیاں ہونا معمول کی بات ہوا کرتی ہے، تو جس کے گھر یا دکان کے سامنے کی جگہ چنی گئی، اس نے پورا زور لگا دیا کہ وہاں یہ "دھماکہ خیز مواد" نصب نہ ہو پائے۔ جب ٹرانسفارمر کو کہیں اور جگہ نہ مل سکی تو ایک ہی آپشن باقی رہ گیا۔ وہ تھا وہاں موجود ایک چھوٹے سے کوچے کا داخلی راستہ۔ چنانچہ کھمبے گاڑ کر کام شروع کر دیا گیا۔ میں وہاں سے گزرتے ہوئے اکثر سوچا کرتا تھا کہ اس چھوٹی سی گلی کے مکینوں کو اس کی وجہ سے کتنی تکلیف ہوا کرتی ہوگی، کبھی کوئی بڑا سامان یہاں سے گزارنا پڑے تو وہ کیا کرتے ہوں گے، بارش میں کتنا پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔۔
کچھ دن قبل دوبارہ وہاں سے گزر ہوا تو ایک نیا منظر میرے سامنے تھا۔ چند من چلوں نے اس ٹرانسفارمر کو ہی ٹرانسفارم کر کے رکھ دیا تھا۔
عرصہ دراز پہلے ایک لطیفہ پڑھا تھا کہ نا ممکن کو ممکن کیسے بنایا جائے؟ جواب تھا، نا ممکن کا "نا" ہٹا کر۔
اس منظر کو دیکھ کر بھی محسوس ہوا کہ گلی کے چند افراد نے اپنی نا مساعد صورت حال کا "نا" ہٹا کر اسے اپنے لیے مساعد بنا لیا ہے۔ وہی راستہ جسے دیکھ کر میرے ذہن میں پہلا تاثر گلی کے مکینوں کی تکلیف کا آتا تھا، اب وہاں ایک خوبصورت دروازہ کسی تقریب کے مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے کھڑا تھا۔
جہاں ایک طرف میں اس راستے کے مسائل پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا، وہیں چند افراد کی نگاہوں نے اس میں ایک نیا موقع دیکھا، اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس طرح اس راستے کے ساتھ منسلک تمام مسائل غائب ہو گئے۔ لیکن اگر وہ بھی اپنی تمام تر توجہ اس کے سبب ہونے والی تکلیف پر ہی مرکوز رکھتے، تو مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں ایسا منظر دیکھنے کو ملتا۔
مجھے لگا کہ اس واقعے میں میرے لیے بھی ایک سبق ہے۔ جس طرح چند من چلوں نے اپنے تمام مسائل میں گھرے رہتے ہوئے بھی ایک نیا موقع ڈھونڈ نکالا، اسی طرح ہمیں بھی زندگی میں کئی مواقع ملتے ہیں جنہیں ہم ڈھونڈ سکتے ہیں اگر اپنی تمام تر توجہ مسائل و تکالیف پر مرکوز نہ رکھیں۔ جس طرح انہوں نے نا مساعد کا صرف نا نکال کر اسے مساعد میں بدلا، اسی طرح ہم بھی اپنی زندگی میں بظاہر نا مساعد نظر آنے والی کئی صورتوں کو محض نا نکال کر مساعد میں بدل سکتے ہیں۔ نہ جانے ایسے کتنے مواقع کو میں صرف اپنی توجہ منفی سمت میں مرکوز کرنے کے سبب ضائع کر چکا ہوں گا۔ امید کرتا ہوں کہ اس یاد دہانی کے بعد میری زندگی میں ایسے مواقع کے ضیاع میں کمی آئے گی۔

منگل، 21 جنوری، 2014

سائنسی مواد اردو میں۔ ہاں یا نہیں۔ ایک دھندلا سا نقشہ

اردو زبان میں سائنسی مواد پر جب بات ہو تو دو اہم نکات اکثر سامنے آتے ہیں۔ ایک طرف کسی کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ سائنسی مواد کی مقامی زبانوں میں موجودگی اسے عام فہم بنانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ دوسری جانب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس سطح پر ہم ہیں، اس حالت میں لوگوں کو اردو میں سائنس پڑھانا انہیں محدود کرنے کے برابر ہے۔ کہ جس سطح پر پہنچ کر انہیں آگے کسی اور زبان کو اختیار کرنے کی ضرورت پڑی، وہاں سے ان کی مشکلات شروع جائیں گی اور آگے بڑھنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ ان کے مطابق شروع سے دیگر زبانوں میں انہیں تربیت دینے سے وہ زیادہ بلند سطح پر موجود مواد، جو کہ صرف غیر زبان میں ہی دستیاب ہوگا، سے بہتر استفادہ کر سکیں گے۔ وزن دونوں ہی باتوں میں ہے۔ پہلا گروہ جب اپنی زبان میں تعلیم دینے والی ترقی یافتہ قوموں کی جانب اشارہ کرتا ہے تو دوسرے گروہ والے اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ وہ ممالک اس معاملے میں پہلے ہی سے کافی مستحکم بنیادیں رکھتے ہیں۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو میں سائنسی تدریس کی کوششوں کو ترک کر دیا جائے؟
میری رائے میں ایسا نہیں۔
موجودہ صورت حال بھی قابلِ قبول تو نہیں۔ اور تبدیلی لانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہاتھ پیر چلانے ہی پڑیں گے۔
لیکن جو لوگ فوری طور پر اردو میں سائنس کی تدریس رائج کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، انہیں بھی اس دلیل کو مد نظر رکھنا ہوگا جس کا ذکر اوپر گزرا۔
تو پھر حل کیا ہے؟
یہ تو عام مشاہدہ ہے کہ پائیدار نوعیت کی بڑی تبدیلی ہمیشہ آہستہ آہستہ ہی آتی ہے۔
میرے خیال میں بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ فی الحال رسمی سائنسی تدریس کو اسی طرح انگریزی میں چلنے دیا جائے لیکن ساتھ ساتھ اردو میں مواد کی دستیابی کی کوششیں بھی جاری رکھی جائیں۔ آج اگر میں کچھ بنیادی نوعیت کا مواد اردو میں دستیاب کر دیتا ہوں تو کل کو اگر کوئی اور آ کر اس پر کام کرنا چاہے گا تو آسانی سے اس کے اوپر تھوڑی اور عمارت کھڑی کر دے گا۔ اسی طرح پھر کوئی اور آ کر کچھ اور اینٹیں لگا دے گا۔ یوں ہوتے ہوتے، اگر اللہ نے چاہا تو، ایک دن ایسا آ ہی جائے گا کہ جب ہمارے پاس بنیادی سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے لیے اردو میں مواد دستیاب ہو۔ بھلے ہی وہ وقت سو سال بعد آئے لیکن اگر چل پڑیں گے تو آہستہ آہستہ ہی سہی، سفر کٹ ضرور جائے گا۔ اور پھر اگلے مرحلے میں دیگر مقامی زبانوں میں یہ سب کام کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ اور تب ہم بھی، ان شاء اللہ، اس مقام پر پہنچ جائیں گے کہ جہاں پہنچ کر ہمارے لیے اپنی زبانوں میں سائنس کی تدریس کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گی۔
لیکن ایک بات کا خیال رہے! صرف مواد ہی دستیاب کرنا کافی نہیں ہوگا۔ خود تحقیق کی عادت بھی ڈالنی ہوگی۔ اس تبدیلی کو دیر پا بنانے کے لیے اس سب کے ساتھ ساتھ خود انحصاریت کی طرف بھی بڑھنا ہوگا۔ دوسروں کا جھوٹا استعمال کرنے کی عادت سے جان چھڑانی ہوگی۔
یعنی کہ بیک وقت دو جہتوں میں بڑھنا ہوگا۔ مواد کی دستیابی بھی اور تحقیق بھی۔
اس کے متوازی فی الوقت تو اپنا تدریسی نظام انگریزی میں چلانا پڑے گا۔ لیکن مجھے قوی امید ہے کہ یہ سفر قدم بہ قدم آگے بڑھتا رہا تو ایک دن ہم اس قابل ضرور ہو جائیں گے کہ انگریزی کی انحصاریت سے بہ آسانی جان چھڑا سکیں۔

بدھ، 25 دسمبر، 2013

ہماری منطق، یہ پیاری منطق

کل چھت پر دھوپ سینکتے ہوئے مطالعہ کر رہا تھا کہ پاس کھڑے کچھ لڑکوں کی گفتگو کی طرف توجہ گئی جو کہ پرسوں طالبات کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال پر اپنی ماہرانہ رائے کا تبادلہ کر رہے تھے۔ یوں تو ہڑتال کی وجہ بننے والے مسائل اور بھی تھے لیکن میں نے ہر طرف لوگوں کو صرف ایک ہی نکتہ پکڑ کر اس کی حمایت کرتے پایا جو کہ تھا پانچ بجے کے بعد ہاسٹل سے باہر نکلنے پر پابندی والا۔ شاید یہ "اسلامی" کہلوانے کے شوقینوں کا پسندیدہ نکتہ تھا، اس لیے۔ یہاں بھی وہی صورت حال تھی۔ فرمانے لگے کہ لڑکیوں کو پانچ بجے کے بعد باہر جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کون سے کام کرنے ہوتے ہیں انہوں نے؟ میں خاموشی سے سنتا رہا کیونکہ مجھے اپنا سکون سے مطالعہ کرنا زیادہ عزیز تھا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ان کی گفتگو کا رخ کل چہلم پر لاگو ہونے والی موبائل فون بندش کی جانب مڑ گیا۔ اچانک کہنے لگے کہ پابندی تو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہیں جی؟ کیا کہا؟ پابندیاں مسائل کا حل نہیں؟ لیکن کچھ دیر پہلے تو آپ حضرات کچھ اور ہی فرما رہے تھے۔ یہ اچانک یوٹرن میرے سادہ سے دماغ کے لیے اتنا پیچیدہ معمہ تھا کہ اس کے بعد آدھا گھنٹہ میں اسی کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ کیا کہہ کر گئے ہیں، اور ایسی کون سی منطق ہوتی ہے کہ جس کے تحت دوسروں کے معاملے میں ہر قسم کے مسئلے کا حل ایک نئی پابندی ہو جبکہ اپنے معاملے میں پابندی کسی بھی مسئلے کا حل نہ ہو۔ کہیں یہ وہی منطق تو نہیں جسے منافقت کہتے ہیں؟ o_O